کہتے ہیں کہ نصیحت کا انداز خوش اسلوبی اور وقت مناسب ہو تو “انداز اور وقت” اثراندازی کے ضامن ہوتے ہیں، لیکن اگر وہی نصیحت
دلچسپ و عجیب
بزرگوں نے واقعہ لکھا ہے کہ ایک معصوم بچہ رو رہا تھا ماں نے اس طرح غصے میں کہہ دیا کہ تو مر جائے اللّٰه
ایک رات وہ اپنے شاندار ریشمی نرم و گداز بستر پر سو رہے تھے کہ اچانک انہیں کمرے کی چھت پر کسی کے چلنے کی
ایک لڑکا تھا اس کا تعلق پسماندہ خاندان سے تھا لیکن وہ دکھنے میں بہت حسین تھا- اس کے کالج میں ایک لڑکی پڑھتی تھی
میں اپنی کلاس کا ایک ہونہار طالب علم سمجھا جاتا تھا اسی لئے دینی تعلیم پر دنیاوی تعلیم کو فوقیت دینے کے لئے ایک تقریر
ایک بیٹا پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بن گیا ” والد کی وفات کے بعد ماں نے ہر طرح کا کام کر کے اسے
ایک بزرگ حج کے سفر پر گئے ایک جگہ سے گزر رہے تھے ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا‘ اس میں ان کے پیسے
آج كھانا تم بناؤگی ، جس نے پانی کا گلاس اٹھ کے کبھی نہیں پیا تھا ، اسے میری ماں نے حکم دیا ۔ وہ
بہت سوچنے اور ڈرنے والی باتیں ہیں، دیکھیں کہیں ہم تو ان میں شامل نہیں۔ (محسوس اور نامحسوس ہونے والی سزائیں) کسی طالب علم نے
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کسی بات پر اپنے وزیر سے ناراض ہوگیا اور اس نے اسے اس کے عہدے سے ہٹا دیا۔