قربِ خُدا
ایک رات وہ اپنے شاندار ریشمی نرم و گداز بستر پر سو رہے تھے کہ اچانک انہیں کمرے کی چھت پر کسی کے چلنے کی آہٹ محسوس ہو ئی۔ نازک مزاج بادشاہ نے نوکر کو بلا کر پوچھا کہ شاہی محل کی چھت پر رات کے وقت کون گستاخ چل پھر رہا ہے۔ پورے محل میں کہرام مچ گیا۔ خدام کی دوڑیں لگ گئیں ایک خادم نے چھت پر جا کر دیکھا تو ایک مجذوب نظر آیا اُسے پکڑ کر بادشاہ کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔
بادشاہ غصے سے دھاڑا تم نے یہ کیا حرکت کی ہے تم چھت پر کیسے اور کیوں پہنچے ہو اور یہاں کیا لینے آئے ہو۔۔۔؟؟؟
مجذوب نے پریشان ہو ئے بغیر بہت آرام سے جواب دیا بادشاہ سلامت میں چور ڈاکو یا خطرناک آدمی نہیں ہوں اور نہ ہی میں کسی بری نیت سے یہاں آیا ہوں۔ اصل میں میرا اونٹ گم ہو گیا میں صبح سے اسے ڈھونڈ رہا تھا کہیں نہیں ملا تو سوچا کہ کہیں میرا اونٹ محل کی چھت پر نہ ہو۔
بادشاہ کا یہ سننا تھا کہ وہ غصے میں آگ بگولا ہو گیا۔ کیونکہ اُس کے آرام میں خلل آجانے سے وہ بہت اپ سیٹ ہو چکا تھا پھٹ پڑا اور کہنے لگا او پاگل بُڈّھے تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا بھلا شاہی محل میں بھی اونٹ تلاش کر تے ہیں یہ پاگلوں والی بات ہے یہ میرا شاہی محل ہے کوئی جنگل صحرا کھیت کھلیان تو نہیں جہاں تمہارا اونٹ آگیا ہو۔
بادشاہ غصے سے دھاڑ رہا تھا لیکن مجذوب اطمینان سے کھڑا تھا جب بادشاہ بہت بول چکا تو وہ بولا بادشاہ سلامت میں نے سن رکھا ہے کہ آپ خدا رسیدہ بننے اور کہلانے کا بڑا شوق رکھتے ہیں۔ اللّٰه تعالٰی آپ کے شوق کو سلامت رکھے مگر حقیقت یہ ہے اگر شاہی محل میں اور اس کی چھت پر اونٹ نہیں مل سکتا تو پھر تخت تاج اور گداز ریشمی مسہریوں (پلنگ) پر بھی خدا نہیں مل سکتا۔ خدا کو پانے کے لیے نرم و گداز بستر سے الگ ہو نا پڑتا ہے آرام دہ میٹھی نیند کو رتجگوں میں بدلنا پڑتا ہے عبادت ریاضت مجاہدوں کے بعد اپنے جسم اور روح کو پاک کر نا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر قربِ خدا حاصل ہوتا ہے۔
یہ بات بادشاہ کے قلب و روح اور باطن کے عمیق ترین گوشوں کو برقی رو کی طرح جلاتی چلی گئی اور اس کے اوسان خطا ہو گئے فوری طور پر اٹھا مجذوب کو عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کیا۔
ساری رات سوچنے کے بعد حضرت ابراہیم بن ادھم رحمت اللّٰه علیہ نے تخت و تا ج چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اس ایک واقعے نے بادشاہ کی زندگی کا رخ موڑ دیا پھر وہ تختِ شاہی چھوڑ کر مقبو لانِ بارگاہِ الٰہِی میں شامل ہو گئے۔
بادشاہی چھوڑ گئے اور فقر کی راہ اختیار کی اور فقر کے منازل طے کرتے چلے گئے۔۔۔ بادشاہی تو تاریخ میں کہیں زندہ نہ رہتی مگر شانِ فقر دیکھیں قیامت تک نام امر کر دیا۔
Leave a Reply