دو شخص دو شالوں کا مقدمہ لے کر قاضی ایاسؒ کی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایک شال سبز رنگ کی نئی اور قیمتی تھی اور
دلچسپ و عجیب
ایک بڑھیا تھی۔ وہ بڑھیا اپنا سارا گہنا پاتا پہن کر کہیں جا رہی تھی۔ گہنا کیا تھا؟ یہی کانوں میں جھمکے تھے۔ باہوں میں
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ
بہت سال پہلے ہمارا ایک بیٹ مین بشیر ہوا کرتا تھا جو کہ سادگی میں اپنی مثال آپ تھا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ
یہ 25 اکتوبر 1947 کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الاضحیٰ کا تہوار منایا جانا تھا۔ عید الاضحیٰ کی نماز کے
ایک مرتبہ ایک پروفیسر اور کسان ایک ساتھ ریلوے سے سفر کررہے تھے۔ سفر کی بوریت دور کرنے کیلئے اور کچھ رقم بٹورنے کیلئے پروفیسر
ایک لڑکا ایک گدھے کو کان سے پکڑ کر کھینچتا ہوا پولیس اسٹیشن کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ پولیس والوں کو شرارت سوجھی ایک
ایک بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جسے رعایا شہزادہ دلیر کے نام سے پکارتی تھی، کیوں کہ اس نے بچپن میںبہادری کے بہت سے
ایک شخص کے تین بیٹے تھے ایک انجینئر ایک ڈاکٹر اور ایک بینکر تھا اس شخص نے مرتے اپنے بیٹوں کو نصیت کی کہ اس
ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻭﻗﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﺴﻦ ﻧﺎﻣﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﮨﺮﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﺑﺮﺗﻦ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﺭﮐﮭﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺪ