جو بولا وہ مارا گیا
ایک بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جسے رعایا شہزادہ دلیر کے نام سے پکارتی تھی، کیوں کہ اس نے بچپن میںبہادری کے بہت سے کام کئے تھے۔ جب وہ دس سال کاتھاتو بادشاہ نے اسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک استاد کے پاس بھیج دیا۔شہزادہ بہت باتونی تھا، اسے ہر وقت بولنے کی عادت تھی، بلا ضرورت بولنےکی وجہ سے ہر کوئی اس سے پریشان تھا۔
اس کے استاد نے اسے خاموش رہنےکے فائدے کے بارے میں سمجھایا، تو اس نے باتیں کرنا کم کر دیں۔ اب وہ صرف استاد سے باتیں کرتا یا پھر کبھی ضرورت کے تحت کسی سے معمولی بات چیت کرتا،جب وہ تعلیم مکمل کر چکا تو محل واپس آگیا۔ استاد کا سکھایا ہوا ہر سبق اسے اچھی طرح یاد تھا،
وہ محل لوٹنے کے بعد بھی کم بولتاتھا۔ بادشاہ، ملکہ، وزیر سب شہزادے کو دیکھ کر حیران و پریشان تھے کہ آخر استاد نے اسے کیا تعلیم دی ہے جو اس نےبولناکم کر دیا۔وہ اب ہر وقت بت بنا رہتا ، جیسے کوئی غم لگ گیا ہو۔ بادشاہ اور ملکہ نے ہر طرح کے حربے آزمائے کہ شہزادہ پہلے کی طرح باتیں کرنے لگے لیکن کوئی طریقہ کام نہ آیا۔کافی سوچ بچار کے بعدایک وزیر نے بادشاہ کو صلاح دی کہ
شہزادے کو شکار پر لے چلتے ہیں، شاید وہاں جا کر اس کا دل بہل جائے اور وہ پہلے کی طرح خوش رہنے اور باتیں کرنے لگے۔ بادشاہ کوامید تو نہ تھی لیکن وہ اپنے بیٹے کو خوش دیکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا چاہتا تھا، اس لیے فوراً راضی ہو گیا۔بادشاہ سمیت تمام امیر اور وزیر شہزادے کو لے کر جنگل شکار کرنے گئے۔اب مسئلہ یہ تھا کہ بادشاہ کی سواری جنگل کے جس حصے سے گزرتی، ان کی آہٹ کی وجہ سے وہاں کے تمام جانور پہلے ہی چوکنا ہو جاتے اور محفوظ مقام پر چلے جاتے۔ اس طرح شام ہوگئی۔جنگل کا سناٹا بڑھتا جا رہا تھا۔ دن بھرگھومنے کے بعد بھی جب کوئی شکار ہاتھ نہ آیا تو وزیر کو خیال آیا کہ اگر خالی ہاتھ لوٹےتو لوگ باتیں بنائیں گے کہ بادشاہ، شہزادہ، وزیر سب مل کر ایک شکار تک نہ کر سکے۔ ابھی وہ اسی سوچوں میں گم تھا کہ، سنسان جنگل میں قریبی جھاڑیوں سے الوّ کی آواز آئی ، ہر کی توجہ اس جانب مبذول ہوگئی، وزیر نے سوچا کہ
کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے کہ کچھ ہو، کوئی بڑا جانور نہ سہی الوّ ہی سہی۔ جس جانب سے آواز آئی اس نے اسی جانب بندوق سے فائر کر دیا۔ بندوق سے نکلی گولی آن کی آن میں الوّ کو جا لگیاوروہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔شہزادہ الوّ کی حالت دیکھ کر کہنے لگا ’’بیچارہ بولا اور مارا گیا، اگر خاموش رہتا تو بچ جاتا‘‘اب بادشاہ سمت ہر کوئی شہزادے کو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے کہ اس نے کتنے پتے کی بات کی، استاد نے اسے کیسا سبق سیکھایا تھا۔ واقعی اگر اس وقت الوّ بولتا نہیں تو اس کی زندگی بچ جاتی وہ یوں وزیر کے ہاتھوں شکار نہ بنتا۔
دیکھا بچو! بلا ضرورت اور ہر وقت بولنے سے کیسے نقصان ہوتا ہے۔ باتیں کرنا اچھی بات ہے لیکن بولتے وقت یہ خیال رکھیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، اس سے کسی کا دل تو نہیں دکھ رہا، آپ کی بات میں دلیل اور کوئیمنطقہے یا نہیں۔ بعض اوقات ہمیں ہمارا کہا ہوا ہی، لوٹ کر ہمارے پاس آتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کم بولنا اور سمجھداری کی بات کرنا عقل مندوں کی نشانی ہے
Leave a Reply