دوشخص دو شالوں کا مقدمہ لے کر قاضی ایاسؒ کی عدالت میں پیش ہوئے۔

دو شخص دو شالوں کا مقدمہ لے کر قاضی ایاسؒ کی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایک شال سبز رنگ کی نئی اور قیمتی تھی اور دوسری سرخ رنگ کی پھٹی ہوئی اور بوسیدہ تھی۔مدعی نے کہا: میں حوض پر نہانے کے لیے نیچے اترا اور اپنی سبز شال کپڑوں کے ساتھ رکھ کر حوض میں اتر گیا۔ تھوڑی دیر بعد یہ شخص اپنے کپڑے حوض کے کنارے میرے کپڑوں کے پاس ہی رکھ کر نہانے کے لیے حوض میں اتر آیا، لیکن مجھ سے پہلے حوض سے نہا کر نکلا، کپڑے پہنے اور میری شال لی اور چلتا بنا۔ میں اس کے قدموں کے نشانات دیکھتا ہوا اس کی تلاش میں نکلا، بالآخر اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگیا۔قاضی نے مدعا علیہ (دوسرے ساتھی) سے پوچھا: تم کیا کہنا چاہتے ہو؟اس نے کہا: جناب والا یہ شال میری ہے، میرے قبضے میں ہے، میں اس کا مالک ہوں، یہ مجھ پر جھوٹا الزام عائد کرتا ہے۔

قاضی ایاسؒ نے مدعی سے پوچھا: تیرے پاس کوئی دلیل ہے کہ یہ شال واقعی تیری ہے؟ اس نے کہا: دلیل میرے پاس کوئی نہیں۔قاضی نے اپنے دربان سے کہا: ایک کنگھی لائو۔دربان کنگھی لے آیا۔ قاضی نے دونوں کے سر پر کنگھی پھیر دی۔ ایک کے سر سے سرخ ریشے اور دوسرے کے سر سے سبز ریشے برآمد ہوئے۔ لہٰذا سرخ شال اسے دے دی، جس کے سر سے سرخ ریشے نکلے تھے اور سبز شال اس کے سپرد کی، جس کے سر سے سبز ریشے برآمد ہوئے تھے۔ اس طرح عدل و انصاف کے مطابق حق والے کو اس کا حق مل گیا۔ قاضی ایاسؒ کو اپنی بے پناہ ذہانت، قابل رشک قوت استدلال ہوشیاری اور حاضر جوابی کے باوجود عدالت میں ایسے اشخاص سے بھی واسطہ پڑجاتا جو اپنی بات دلائل سے منوا لیا کرتے تھے اور انہیں خاموش ہونے پر مجبور کر دیا کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ انہوں نے خود بیان کیا، فرماتے ہیں کہ خدا کا شکرکہ ایک شخص کے علاوہ آج تک کوئی بھی گفتگو میں مجھ پر غالب نہ آسکا۔وہ اس طرح کہ میں بصرہ کی عدالت میں مقدمات نمٹانے کے لیے بیٹھا ہوا تھا،

ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے بڑے خوشی سے کہا: میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ فلاں باغ فلاں شخص کا ہے اور اس باغ کے بارے میں مجھ کو کچھ نشانیاں بتلائیں کہ وہاں ایسا ہے ایسا ہے۔میں نے اس کی گواہی کا امتحان لینے کے انداز میں پوچھا: جس باغ کے متعلق گواہی دے رہے ہو، اس میں کتنے درخت ہیں؟ اس نے سر جھکایا، پھر سر اٹھا کر بولا: جناب والا گستاخی معاف! آپ کتنے عرصے سے اس کمرئہ عدالت میں فیصلے سنانے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں؟میں نے کہا: کافی عرصے سے۔ اس نے پوچھا: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کمرے کی چھت میں کتنی لکڑیاں استعمال ہوئی ہیں؟ میں پریشان ہوا اور کہا اس کا مجھے علم نہیں اور ساتھ ہی میں نے شرمندہ ہو کر اسے کہا: بھائی آپ کی گواہی سچی ہے، میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔پہلے زمانے میں لوگ چھتوں پر بڑی بڑی لکڑیاں لگاتے تھے، پھر اس پر چھت ہوتی تھی۔ اس لیے انہوں نے قاضی صاحبؒ سے چھت کی لکڑیوں کے متعلق پوچھا تھا کہ جس طرح آپ نے چھت کی لکڑیاں نہیں گنی ہیں، اسی طرح میں نے باغ کے درخت نہیں گنے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *