حضرت ابوالکلام کہتے ہیں کہ ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی میں
دلچسپ و عجیب
ایک گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔اس کا ایک کام چور بیٹا تھا،شیخی بگھارنے میں بہت ماہر تھا،اس کو شیخ چلی کے نام سے پکارا
کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایک جادوگر رہتا تھا۔جادوگر کی ناک نیلے رنگ کی تھی سب لوگ اس کو نیلا جادوگر کہتے تھے اسی پہاڑ
غربت انسان کو اس قدر مجبور اور خود غرض بنا دیتی ہے کہ وہ چاہ کر بھی دوسروں کی مدد نہیں کر سکتا اور اپنی
خاصی پرانی بات ہے۔ملتان ریلوے سٹیشن کے ویٹنگ روم میں جونہی میں نے صبح کی نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے،ایک برقع پوش
آج جو عذاب الٰہی پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ،دولت اور جائیداد سے محبت کرنے کی صورت میں نازل ہو چکا ہے ہر
یوسف آج پھر کام سے دیر سے آیا تھا۔البتہ وہ اپنے بیٹوں کے لئے کھلونے لانا نہیں بھولا تھا۔اب وہ انہیں کھیلتے دیکھ کر خوش
”سعید صاحب کتنے دن ہو گئے ہیں ثمرہ نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر نہ تو کھانا کھایا ہے نہ ہی کوئی بات کی ہے۔“مسنر سعید
نیویارک کے ساحل سمندر پر فیری (کشتی) کھڑی تھی جو کہ لوگوں کو بیٹھا کر سٹیچو آف لبرٹی تک پہنچاتی․․․․مگر فیری میں سوار ہونے کیلئے
تگی اور تگا سرائیکی علاقے میں خواتین و حضرات کے نام ہوتے ہیں۔تاہم اب کافی حد تک معدوم ہو چکے ہیں۔جب سے نئی روشنی آئی