لال جادوگر

کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایک جادوگر رہتا تھا۔جادوگر کی ناک نیلے رنگ کی تھی سب لوگ اس کو نیلا جادوگر کہتے تھے اسی پہاڑ کی دوسری چوٹی پر دوسرا جادوگر رہتا تھا۔اس کی ناک لال رنگ کی تھی۔لوگ اس کو لال جادوگر کہتے تھے۔

لال جادوگر اور نیلے جادوگر کی آپس میں کھٹ پٹ رہتی تھی۔ایک کہتا میری ناک لمبی ہے۔دوسرا کہتا نہیں میری ناک لمبی ہے۔دونوں جادوگر بڑے ضدی تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے،نیلا جادوگر اپنے گھر سے نکل کر باغیچے میں آیا۔بہار کا موسم اور صبح کا وقت تھا۔

ہر طرف پھول کھلے تھے۔سبزہ لہلہا رہا تھا۔جادوگر نے خوش ہو کر کہا”آہا!کیا پیارا موسم ہے۔تب وہ سبزے پر لیٹ گیا اور گیت گنگنانے لگا۔اچانک اس نے چونک کر کہا”میری ناک میں اچھے اچھے کھانوں کی خوشبو آرہی ہے۔

ذرا دیکھوں تو یہ کھانا کہاں پک رہا ہے۔ اس نے اپنی نیلی ناک کو حکم دیا”چل میری ناک،چھومنتر کے زور سے لمبی ہوتی جا“ اور نیلے جادوگر کی ناک لمبی ہوتی گئی۔لمبی اور لمبی،یہاں تک کہ پہاڑ کی سات چوٹیوں کو پھلانگ گئی اور ہزار میل دور ایک گاؤں کے ایک پختہ مکان میں پہنچ گئی۔

وہ مکان ایک زمین دار کا تھا۔اس کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شاداں تھا۔اس دن شاداں نے اپنی سالگرہ منائی تھی اور اپنی ننھی منی سہیلیوں کو کھانے کی دعوت دی تھی۔پلاؤ،زردہ،بریانی اور ڈھیر سارے اچھے اچھے کھانوں کی پلیٹیں میز پر سجی تھیں۔

کھانے کی میز پر بیٹھنے سے پہلے شاداں نے سب سہیلیوں سے کہا”آؤ،اپنے دوپٹے،چادریں اور شال اَلگنی پر ٹانگ دیں“۔لیکن وہاں اَلگنی کہاں تھی۔اچانک نیلے رنگ کی ایک چھڑی گھر کے صحن میں پھیلی ہوئی نظر آئی۔سب لڑکیوں نے اپنے رنگ برنگے دوپٹے،چادریں اور شال اس چھڑی پر لٹکا دیئے لیکن وہ چھڑی تو نہ تھی۔

نیلے جادوگر کی نیلی ناک تھی۔

یہاں سے ہزار میل دور پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے نیلے جادوگر نے اپنے دل میں کہا”یہ میری ناک میں کھجلی کیوں ہو رہی ہے؟“تب اس نے اپنی ناک سے کہا”اے میری ناک،چھومنتر کے زور سے چھوٹی ہوتی جا“۔

پھر تو نیلے جادوگر کی نیلی ناک چھوٹی ہوتی گئی۔چھوٹی اور چھوٹی اور جب وہ ناک قریب آئی تو نیلا جادوگر خوشی سے اُچھل پڑا۔

”کیسے رنگا رنگ اور قیمتی کپڑے ہیں،یہ کپڑے میں اپنی بیٹی کے جہیز میں دوں گا“ادھر شاداں اور اس کی سہیلیوں نے جب دیکھا کہ نیلی چھڑی ان کے قیمتی کپڑوں کو سمیٹ کر اڑی جا رہی ہے تو پلیٹیں چھوڑ کر دوڑیں۔

بہت شور مچایا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔

نیلے جادوگر نے وہ سارے قیمتی کپڑے لال جادوگر کو دکھائے اور کہا”اب بتاؤ بھلا تمہاری ناک لمبی ہے یا میری؟“

لال جادوگر بہت کھسیانا ہوا۔اس کا منہ غصے سے لال ہو گیا۔اس نے زور زور سے پاؤں پٹکے اور گھر سے یہ کہتا ہوا نکلا کہ اب میں اپنا جادو دکھاؤں گا۔

لال جادوگر پہاڑ کی اونچی چوٹی پر چڑھ گیا۔اس نے اپنی ناک کھجائی۔اسے دور تک پھیلا لیکن کوئی مزے دار خوشبو ناک میں نہ سمائی۔رات ہو گئی تو لال جادوگر اپنی ناک غصے سے مروڑتا ہوا پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اُتر آیا۔اس نے وہ رات بڑی بے چینی میں گزاری۔

صبح ہوئی تو وہ پہاڑ کی دوسری چوٹی پر چڑھ گیا۔دیر تک اپنی ناک کھجاتا رہا۔دور تک ناک کو پھیلاتا رہا لیکن کوئی مزے دار خوشبو ناک میں نہ سمائی،یہاں تک کہ رات ہو گئی اور لال جادوگر اس روز بھی اپنی ناک کو غصے سے مروڑتا ہوا پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اُتر آیا۔

تیسرے دن لال جادوگر تیسری چوٹی پر پہنچا چوتھے دن چوتھی چوٹی پر۔یہاں تک کہ اس نے سات چوٹیاں چھان ماریں لیکن مزے دار خوشبو نہ ملنا تھی نہ ملی۔

دل میں کہا”میں اپنی ناک کو لمبا کروں گا لمبا کرتا جاؤں گا۔کہیں تو کوئی مزے دار چیز سونگھنے کو ملے گی“۔

تب لال جادوگر نے اپنی لال ناک کو حکم دیا”اے میری لال ناک چھومنتر کے زور سے لمبی ہوتی جا“اور جادوگر کی لال ناک لمبی اور لمبی ہوتی گئی۔یہاں تک کہ سات چوٹیوں کو پھلانگتی اسی زمین دار کے گھر میں جا پہنچی۔

زمین دار کا ایک بیٹا تھا۔

اس کا نام شادو تھا۔اسی دن شادو نے اپنے دوستوں کو باغیچے میں کھیلنے کے لئے بلایا تھا۔شادو اور اس کے دوستوں نے دیکھا کہ لال رنگ کی ایک مضبوط ٹہنی باغیچے میں دور تک پھیلی ہوئی ہے۔سب بہت خوش ہوئے۔شادو نے چھلانگ لگائی اور ٹہنی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھولا جھولنے لگا۔

دوسرے لڑکوں نے بھی چھلانگیں لگائیں اور ٹہنی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھولا جھولنے لگے۔

زمین دار کے نوکر نے جو یہ کھیل دیکھا تو کہا”ٹھہرو،میں رسہ لاتا ہوں۔ٹہنی پر رسہ ڈال کر مزے سے جھولا جھولیں گے۔

پھر تو سب لڑکوں نے لال جادوگر کی لال ناک پر رسے کا جھولا ڈال کر پینگیں چڑھائی شروع کر دیں۔

ایک لڑکے کو شرارت سوجھی۔اس نے لال جادوگر کی ناک پر چاقو کی نوک سے کھودنا شروع کر دیا۔دوسرے لڑکے نے کوٹ سے پِن نکال کر ناک میں چبھو دی۔

اب سنو کہ لال جادوگر درد کے مارے بلبلا اٹھا۔ناک میں پِن کی نوک لگتے ہی اسے سخت کھجلی ہوئی اور جب ناک میں چاقو کی نوک لگی تو وہ تکلیف کے مارے چیخ پڑا”ہائے،میری ناک!ہائے،میری ناک!“لال جادوگر کی یہ چیخ سن کر نیلا جادوگر گھر سے باہر نکل آیا۔

اتنی دیر لال جادوگر نے جادو کا زور لگا کر ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی لال ناک کھینچی،زمیندار کا لڑکا اور دوسرے لڑکے چھلانگ مار کر جھولے سے کود پڑے اور جب لال جادوگر کی لال ناک سمٹتے سمٹتے قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ وہ بُری طرح سوجھ گئی تھی اور لہولہان تھی۔نیلا جادوگر لال جادوگر کی یہ دُرگت دیکھ کر خوب ٹھٹھے مار کر ہنسا۔بے چارہ لال جادوگر بہت شرمندہ ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *