بدبخت
ایک بہت ہی غریب شخص امداد کیلئے کسی سیٹھ کے پاس گیا‘ سیٹھ صاحب دل کے کمزور تھے‘ غریب شخص ان کے پاس پہنچا‘ ان کے قدموں میں بیٹھا اور اپنی دکھ بھری داستان سنانا شروع کر دی۔ اس کی کہانی اوراس کا لہجہ اتنا دردناک تھا کہ سیٹھ صاحب کے آنسو نکل آئے اور وہ بھی غریب سوالی کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگے‘روتے روتے سیٹھ صاحب نے اپنے ملازم کو آواز دی‘
غریب شخص سمجھا سیٹھ صاحب ابھی ملازم کواس کی مدد کرنے کا حکم دیں گے لیکن جونہی ملازم سیٹھ صاحب کے پاس آیا‘ سیٹھ صاحب نے اسے حکم دیا‘ اس بدبخت شخص کو دھکے دے دے کر باہرنکال دو‘ اس نے رلارلا رک میرابرا حال کر دیا ہے۔یہ کسی دوسرے شخص کی کہانی نہیں‘ یہ اس ملک کی کہانی ہے کیونکہ اس ملک کا ہر غریب‘ نادار‘ مسکین اور مڈل کلاس بدبخت شخص ہے اور اس ملک کی ہر حکومت‘ ہر حکمران اور ہر وزیر خزانہ سیٹھ ہے۔
ہماری حکومتوں کو غریبوں کی عزت‘ مسکینی‘ ناداری اور پریشانی ہمیشہ دکھ دیتی ہے‘ یہ لوگ عام شخص کے دکھوں پر غمگین بھی ہو جاتے ہیں‘ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آ جاتے ہیں اور یہ غریبوں کی غربت دیکھ کر بے چین بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ اس کی کہانی اوراس کا لہجہ اتنا دردناک تھا
لیکن جب غریب کی عملی مدد کا وقت آتا ہے تو یہ اپنے کسی نہ کسی وزیر‘ کبیر‘ مشیر کوبلوا کر حکم دیتے ہیں اس بدبخت کو دھکے دے کر باہر نکال دو۔ اس نے رلارلا کر میرا براحال کر دیا ہے
Leave a Reply