نفرتیں گمانوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں
مسجد کی اسپیکر والی الماری جو بغیر تالے کے ہے ایک دن آذان دینے کے لئے مؤذن صاحب نے اسپیکر کا بٹن کھولا تو اسپیکر کی مشین تو چلی مگر آواز ہارن تک نہ جاتی تھی، بوڑھے مؤذن صاحب نے مشین اور الماری بند کر کے بغیر اسپیکر کے آذان دی۔ جب نمازی آئے تو مؤذن صاحب نے کسی نوجوان کو اسپیکر چیک کرنے کو کہا، اُس نے دیکھا تو ہارن کی جانب جانے والی تار ایسے کٹی اور چھیلی ہوئی تھی
جیسے کسی نے چھری سے کاٹنے کی کوشش کی ہو، ساری مسجد میں یہ بات پھیل گئی کہ جناب…! کوئی چور مشین چوری کرنے کی غرض سے آیا اچانک کسی آہٹ سنائی دینے پر وہ کام نامکمل چھوڑ کر بھاگ گیا اَب چور تلاش کرنے کی صدا لگائی گئی۔
محلے کے فلاں اوباش کی یہ حرکت ہو سکتی ہے، دوسرے نے کہا: فلاں چھوکرا بری صحبت میں اٹھتا بیٹھتا ہے اُس کی کارستانی ہو سکتی ہے، تیسرے بابا جی نے کہا: فلاں گھر والا لڑکا دوسال پہلے چوری کے کیس میں پکڑا گیا تھا مجھے تو اُس پر شک ہے، غرض کہ جتنے منہ اُتنی باتیں۔۔۔
ظاہر ہے کسی کا گھر تو تھا نہیں کہ جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو جاتا مجلس برخاست نہ ہوتی، سب اپنی بولی بول کر آہستہ آہستہ بِنا کوئی فیصلہ کئے مسجد سے رخصت ہو گئے، تار جوڑ دی گئی، آذان کی آواز آنا شروع ہو گئی، ہر نماز پہ بات چِھڑتی اور مختلف چوروں پہ تبصرے ہوتے رہے۔
دوسرے دن ظہر کی آذان دینے کے لئے مؤذن صاحب نے جونہی الماری کا پَٹ کھولا تو خَپ کر کے بڑا چوہا مؤذن صاحب کے قدموں کو چھوتا وہ گیا، اوسان بہال ہونے پہ جب مشین کا بٹن کھولا تو ہارن میں آواز ندارد۔۔۔ وہی تار کٹی ہوئی، وہی کل والا مسئلہ۔۔۔ اَب جب نمازی تشریف لائے تو مؤذن صاحب نے ساری صورتحال سے آگاہ کیا، سب خاموش۔۔۔
صاحب! ہمارے اکثر جھگڑے مفروضوں پہ قائم ہوتے ہیں، دشمنیاں شک کی بنیاد پہ ہوتی ہیں، نفرتیں گمانوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، اکثر وہ کچھ نہیں ہوتا جو ہم سوچ رہے ہوتے ہیں۔
دل پاک کیجئے، سوچ پاک ہو جائے گی، نفرت کی جگہ اُلفت جنم لے گی۔“
Leave a Reply