بس پانچ منٹ اور
ایک دن ایک پارک میں ایک عورت نے ساتھ بیٹھے آدمی کو ایک سرخ سویٹر پہنے لڑکے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ دیکھو، وہ میرا بیٹا ہے جو وہ ریت کے ڈھیر پر کھیل رہا ہے۔ آدمی مسکرایا اور بولا کہ یہ جو سائیکل چلا رہی ہے یہ میری بیٹی ہے۔ جس نے سفید رنگ کے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ آدمی تھوڑی جلدی میں تھا۔
آفس جا کر کچھ کام نبٹانا تھا۔اپنی بیٹی میلیسہ سے بولا کہ چلو شاباش گھر چلیں ٹائم کافی ہو گیا ہے۔ میلیسہ نے فریاد کی : پاپا پلیز ابھی نہیں۔۔۔ پانچ منٹ اور۔ باپ نے بولا کہ ٹھیک ہے۔ آپ سائیکلنگ کرتی رہو۔پانچ منٹ گزرنے کے بعد باپ نے پھر پو چھا کہ بیٹا ابھی واپس چلیں۔ دیر ہو رہی ہے۔ بیٹی پھر بولی نہیں نہ بس پانچ منٹ اور۔ آدمی پھر آرام سے بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر ساتھ بیٹھی عورت بولی بھائی آپ میں بہت صبر ہے۔ بچی کی ضد بار بار مان رہے ہیں۔ آدمی نے رنجیدہ ہو کر جواب دیا کہ میرا بڑا بیٹا روز اسی پارک میں اسی جگہ سائیکلنگ کرتا تھا، وہ ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ دو سال پہلے کی بات ہے، جس دن اس کی وفات ہوئی، میں نے تہیہ کر لیا کہ اپنے بیٹے کو تو میں بلکل وقت نہیں دے سکا تھا مگر اپنی اس چھوٹی سی بیٹی کو اب جتنا ہو سکے وقت دونگا۔میرا دل ہر وقت اپنے بیٹے کے ساتھ ٹائم گزارنے کو ترستا ہے۔ ابھی میری بیٹی سمجھ رہی ہے کہ اس کو سائیکلنگ کے لیے پانچ منٹ اور مل گئے ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنی بیٹی کو دیکھنے اور تسکین حاصل کرنے کے لیے پانچ منٹ مزید مل گئے ہیں۔ زندگی میں سب سے اہم کام اپنی ترجیحات کا درست تعین کرنا ہے اور سب سے زیادہ اہمیت کی حامل فیملی ہوتی ہے، رشتے ہوتے ہیں۔ ان کو زیادہ سے زیادہ پیار ، توجہ اور وقت دینا چاہیے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ باپ کا کام ہوتا ہے کمانا اور اپنے بچوں کی کفالت کرنا۔ مگر اس اثناء میں اگر وہ بچوں کو وقت دینا بھول جا ئے تو کتنے بڑے بڑے حادثے رونما ہو سکتے ہیں۔ باپ صرف بچوں کے لیے کمانے کی دوڑ میں لگا رہے تو اس سے وہ بچوں کو وقت نہیں دے پاتا اور ان کے لیے تحفظ اور بہترین نشو نما فراہم نہیں کر پاتا۔ کسی کے چلے جانے کے بعد ہی ہم اس کی اہمیت کو کیوں سمجھ پاتے ہیں۔
Leave a Reply