نورپور کی دھوبن

بشیرن،نورپور کی دھوبن کے نام سے مشہور تھی۔یہ عورت نہایت ایمان دار اور اپنے کام سے کام رکھنے والی عورت تھی۔کسی کے معاملات میں مداخلت نہ کرتی۔اگر کبھی کسی کی جیب سے اسے پیسے ملتے تو وہ فوراً اسے مالک تک پہنچاتی۔اس کی ایمان داری کی وجہ سے نور پور کے تمام لوگ اسی سے کپڑے دھلواتے ،یہاں تک کہ بادشاہ،وزیر اور شہر کے قاضی کے کپڑے بھی بشیرن دھوبن ہی دھوتی تھی۔

صاف ستھرے بے داغ کپڑے دیکھ کر سب کا دل خوش ہو جاتا۔ایک دن بشیرن کو شیروانی کی جیب سے ایک انگوٹھی ملی،جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔الٹ پلٹ کر دیکھا۔ایسی چکا چوند انگوٹھی جس میں قیمتی ہیرا لگا ہوا تھا،اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔جلدی سے شیروانی کی نشانی دیکھی تو معلوم ہوا کہ یہ وزیر اکبر علی کی شیروانی ہے۔

اس نے دل میں سوچا کہ جیسے ہی کپڑے سوکھیں گے،وہ سب سے پہلے اکبر علی کے کپڑے اس انگوٹھی سمیت واپس کرکے آئے گی۔ انگوٹھی کو دوپٹے کے پلو میں باندھ کر وہ گھر کی طرف چل دی۔گھر پہنچی تو اُسے پتا چلا کہ اس کی اکلوتی بیٹی کو تیز بخار ہے اسی وقت دوڑ کر اسے کھلا پلا کر دوا دی ،پھر ماتھے پر پٹی رکھ رکھ کر بخار کم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔آخر تھکن سے چور ہو کر بیٹی کے سرہانے ہی سو گئی۔

آنکھ کھلی تو دیکھا آدھی رات ہو گئی۔بیٹی کی فکر میں انگوٹھی کی جانب اس کا ذہن ہٹ گیا اور وہ بھول گئی۔

اُدھر محل میں بادشاہ سلامت کی انگوٹھی گم ہو گئی تھی۔محل کا ہر شخص فکر مند تھا اور کیوں نہ ہوتا وہ بادشاہ سلامت کے والد کی واحد نشانی تھی۔

بادشاہ نے محل کا کونا کونا چھان لیا،لیکن انگوٹھی نہ ملی۔وزیر اکبر علی بھی دوسرے خادموں کی طرح چہرے پر فکر مندی سجائے انگوٹھی کی تلاش میں مصروف تھا۔اِدھر بشیرن دھوبن اپنی بچی کی طبیعت کی وجہ سے بے حد فکر مند تھی۔اسی پریشانی میں وہ کپڑے دھونے بھی نہ گئی۔

تین دن کی تلاش کے بعد بادشاہ نے اعلان کروایا کہ جس کو بھی وہ انگوٹھی ملے یا ڈھونڈ کر لائے اسے ایک ہزار سونے کی اشرفیاں دی جائیں گی۔یہ اعلان سنتے ہی نورپور کا ہر شخص انگوٹھی ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا۔

”لاؤ بیگم!میری شیروانی جو میں تین دن پہلے دربار میں پہن کر گیا تھا۔

“وزیر اکبر علی کسی خیال سے خوش ہوتے ہوئے بولا۔

”وہ تو میں نے کمرے میں کھونٹی پر لٹکا دی تھی۔“وزیر کی بیگم یہ کہہ کر شیروانی لینے چل دی۔

”ارے یہاں سے شیروانی کہاں گئی؟“وزیر کی بیگم کی چیخ ہی نکل گئی۔

وزیر اکبر علی دوڑتا ہوا آیا:”یہ کیا کر دیا شیروانی کہاں گم کر دی؟“

اکبر علی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔

اسی دوران وزیر کی بہن آگئی اور وزیر اکبر علی سے بولی:”بھائی!وہ تو میں نے دھوبن کو پرسوں ہی دے دی تھی۔

یہ سن کر اکبر علی کی آواز حلق میں گھٹ گئی،کیونکہ بادشاہ کی انگوٹھی چرانے کا ماجرا اس کے علاوہ صرف اس کی بیوی کو معلوم تھا اور چونکہ بہن اس بات سے بے خبر تھی،لہٰذا اس نے نہ بتانے میں ہی عافیت جانی۔بہن کے جاتے ہی اکبر غصے اور پریشانی سے ہاتھ ملنے لگا،کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نورپور کی دھوبن بہت ایمان دار ہے۔

اگر اس نے اعلان سن کر وہ انگوٹھی دربار میں بادشاہ سلامت کو پیش کر دی تو بادشاہ میری گردن اُڑا دے گا،کیونکہ یہ انگوٹھی وزیر اکبر علی کی شیروانی سے برآمد ہوئی تھی اور یہ بات دھوبن سچ سچ بتا دے گی۔اکبر علی جانتا تھا کہ بادشاہ سلامت کی یہ انگوٹھی ان کے والد کی نشانی ہے اور یہ انھیں جان سے زیادہ عزیز ہے،لہٰذا اسے پانے کے لئے بادشاہ بڑے سے بڑا انعام دینے سے گریز نہیں کریں گے۔

انعام کی لالچ میں اور بادشاہ کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لئے اکبر علی نے یہ انگوٹھی چرائی تھی۔اسے نہیں معلوم تھا کہ سب تدبیریں اُلٹی ہو جائیں گی۔پوری رات وزیر اکبر علی مختلف منصوبے بناتا رہا۔آخر ایک منصوبہ اُسے بہتر لگا کہ دھوبن کو جھوٹا ثابت کرکے اسی پر چوری کا الزام لگا یا جائے تو وہ یقینا بچ جائے گا۔

یہ سوچ کر وہ اطمینان سے سونے کے لئے لیٹ گیا۔

بشیرن دھوبن کی بیٹی کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو وہ صبح ہوتے ہی اسے طبیب کے پاس لے کر نچی۔

”ارے جسے بادشاہ کی انگوٹھی مل جائے گی،اس کے تو بھاگ ہی جاگ جائیں گے۔نہ جانے نورپور کا وہ کون خوش قسمت انسان ہو گا۔

“ قریب بیٹھی عورتوں کی گفتگو سن کر دھوبن چونکی اور اسے وزیر اکبر علی کہ وہ انگوٹھی یاد آگئی۔ان ہی عورتوں سے دھوبن کو بادشاہ کی انگوٹھی کی ساری بات پتا چل گئی تھی۔دوا لینے کے بعد جلدی جلدی گھر پہنچی۔دوپٹے کا آنچل کھول کر انگوٹھی دیکھی اور وزیر اکبر علی کی اس حرکت کو سمجھتے ہوئے افسوس کرنے لگی۔

وزیر اکبر علی نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے اپنی بہن کو دوسرے گاؤں بھجوا دیا،تاکہ وہ اس کا راز نہ جان سکے۔اُدھر دھوبن سیدھی بادشاہ سلامت کے دربار پہنچی،کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وزیر اکبر علی اس وقت دربار میں ہو گا۔

”بادشاہ سلامت!نورپور کی دھوبن دربار میں آنے کی اجازت چاہتی ہے۔“خادم خاص نے آکر بادشاہ سلامت سے اجازت چاہی۔ دربار میں دھوبن کا نام سن کر وزیر سٹپٹا گیا۔

”اجازت ہے۔“بادشاہ سلامت نے دھوبن کو دربار میں پیش کرنے کی اجازت دی۔

”کہو بشیرن!کیا بات ہے؟“بادشاہ سلامت نے دھوبن کو دربار میں مخاطب کیا۔

”عالی جاہ!گستاخی معاف،میں آپ سے نہیں وزیر اکبر علی سے ملنے آئی ہوں،ان کی ایک امانت لوٹانی ہے۔“دھوبن نے نہایت عاجزانہ انداز میں کہا۔

”اگر آپ کی اجازت ہو تو میں ان کی یہ شیروانی اور یہ انگوٹھی واپس کرنا چاہوں گی ،جو ان کی شیروانی کی جیب سے نکلی تھی۔“دھوبن نے دونوں چیزیں بادشاہ سلامت کے آگے کر دیں۔بادشاہ اپنی انگوٹھی دھوبن کے ہاتھ میں دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

اُدھر وزیر اکبر علی کے پسینے چھوٹ گئے۔

”یہ․․․․یہ․․․․یہ میری انگوٹھی نہیں یہ تو بادشاہ سلامت کی ہے،تمہارے پاس کہاں سے آئی۔یہ یقینا تم نے ہی چرائی تھی اور اب مجھ پر تہمت لگانے آگئیں۔“وزیر نے نہایت مکاری سے دھوبن پر الزام لگایا۔

بادشاہ سلامت دھوبن کو دیکھنے لگے۔

دھوبن کو وزیر اکبر علی سے یہ توقع نہیں تھی،لیکن وہ بھی نہایت سمجھ دار تھی،فوراً عرض کی:”عالی جاہ!اگر میں یہ انگوٹھی چراتی تو پھر یہاں واپس کرنے کیوں آتی!یہ تو مجھے اکبر علی کی شیروانی کی جیب سے ملی ہے اور مجھ غریب کا محل سے کیا تعلق جو میں یہاں آکر چیزیں چراؤں۔

”بادشاہ سلامت!یہ دھوبن جھوٹ بول رہی ہے اور سراسر بہتان لگا رہی ہے۔“وزیر اکبر علی اتنے کڑوے سچ کو سن کر چیخ پڑا۔

سچ پوچھیں تو دربار میں سب کو دھوبن کے سچ پر یقین تھا اور بادشاہ سلامت کو بھی دھوبن کی بات میں وزن محسوس ہوا۔

”بادشاہ سلامت !میری بیگم نے یہ شیروانی پرسوں دھلنے دی تھی اور اس انگوٹھی کو غائب ہوئے آج چوتھا دن ہے۔اگر انگوٹھی میری شیروانی میں سے نکلی ہوتی تو یہ اسی وقت لے آتی،یہ دھوبن جھوٹ بول رہی ہے۔اس کے دل میں کھوٹ ہے،جبھی اتنے دن تک انگوٹھی اپنے پاس رکھے رہی۔

“وزیر اکبر علی نے پینترا بدلا۔

دھوبن نے اپنی بیٹی کی طبیعت کی ساری روداد بادشاہ سلامت کو سنا دی اور اس نے ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کر دی یہ شیروانی وزیر کی بیگم نے نہیں،بلکہ اس کی بہن نے دھلنے کو دی تھی۔دھوبن کی بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے وزیر کی بہن اور اس طبیب کو دربار میں بلوایا گیا۔

طبیب تو حاضر ہو گیا،مگر وزیر کی بہن حاضر نہ ہوئی۔طبیب نے دھوبن کی بیٹی کی طبیعت ناسازی کے بارے میں بادشاہ کو سچی گواہی دی۔ادھر وزیر کی بہن کو شاہی خادموں کے ذریعے دربار میں بلایا گیا۔چونکہ بہن اپنے بھائی وزیر اکبر علی کی اس عیاری سے واقف نہ تھی،لہٰذا اس نے بھی دھوبن کے حق میں سچی گواہی دی۔

یوں اکبر علی کے جھوٹ اور چوری کا پول کھل گیا۔بادشاہ نے وزیر اکبر علی کو عہدے سے برطرف کرکے دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی اور دھوبن کو ایک ہزار سونے کی اشرفیوں کے ساتھ ساتھ اس کی ایمان داری پر ماہانہ وظیفہ مقرر کرتے ہوئے مزید انعام و اکرام سے نوازا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *