خالی ہاتھ ایک حقیقت
خالی ہاتھ ایک حقیقت
ایک افریقی شخص ایسے شہر میں پہنچا جہاں تقریباً شہر کی آبادی کا نظام قرض پر چلتا تھا،
وہ افریقی شخص 1000 روپے ہوٹل کے کاؤنٹر پر رکھےاور بولا میں جا رہا ہوں کمرہ پسند کرنے۔
ہوٹل کا مالک فورا” 1000 روپے لے کر بھاگا گھی والے کے پاس اور اس کے 1000 روپے دے کر گھی کا حساب چکادیا۔
گھی والا بھاگا دودھ والے کے پاس اور 1000 دے کر دودھ والے کا پورا حساب چکادیا۔
دودھ والا بھاگا گائے والے کے پاس اور گائے والے کو 1000 روپے دے کر دودھ کا حساب پورا کردیا۔
گائے والا بھاگا چارے والے کے پاس اور چارے کا 1000 روپے کٹوا آیا۔
چارے والا گیا اسی ہوٹل پر وہ وہاں ادھار میں کھانا کھاتا تھا اس نے 1000 روپے دے کر
کھانے کا حساب چکتا کیا
وہ افریقی شخص واپس آیا اور یہ کہہ کر اپنے 1000 روپے لے گیا کہ اسے کوئی کمرہ پسند نہیں آیا۔
نہ کسی نے کچھ لیا
نہ کسی نے کچھ دیا
سب کا حساب چکتا
بتانا گڑبڑ کہاں ہے؟
کہیں گڑبڑ نہیں ہے بلکہ سبھی کی غلط فہمی ہے کہ روپے ہمارے ہیں جبکہ
دنیا صرف اتنی ہی ہماری ہے جو اعمال صالحہ کی شکل میں صندوق میں ڈالی، پہن لیا اور کھا لیا باقی سب کچھ لواحقین کا ہے۔
خالی ہاتھ آئے تھے خالی ہاتھ ہی جانا ہوگا مگر اعمال کا صندوق ساتھ ہوگا۔“
Leave a Reply