ایک نیک دوشیزہ شادی سے پہلے حاملہ ہوگئی لیکن کوئی بھی یہ پتا نہ لگا سکیں کہ لڑکی کنواری ہے

کلثوم بچپن سے ہی سلجھی ہوئی لڑکی تھی وہ مولوی صاحب کی اکلوتی بیٹی تھی ۔جب وہ جوان ہوئی تو اس کی خوبصورتی کے چرچے پورے گاؤں میں ہونے لگے ایک رئیس کا بیٹا اس پر اپنا دل ہار بیٹھا وہ خود ایسی محفلوں کی زینت بنتا تھا جہاں ش ر ا ب نوشی عام تھی اور اس کے عورتوں کیساتھ ناجائز تعلقات تھے جب اس سے اس کے دوست نے پوچھا کہ تم تو ایک رنگین مزاج آدمی ہوں پھر تجھے امام مسجد کی بیٹی ہی کیوں پسند آئی ہے اس نے جواب دیا کہ یہ سب چیزیں تو میں دل بہلانے کیلئے کرتا ہوں مگر ان کو میں اپنے گھر کی زینت نہیں بناسکتا اس کے دوست نے کہا کہ اگر تم اس لرکی کو اپنا نا چاہتے ہو تو تجھے یہ سب چھوڑنا پڑے گا

یہ سن کر رئیس کے بیٹے کو غصہ آگیا اس نے اپنے دوست سے کہا کہ میرے معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے میں وہی کرونگا جو میرا دل کرے گا رئیس کا دوست اسی کے خرچے پر ہی پل رہا تھا اس نے دل میں سوچا کہ یہ تو عقل کا اندھا ہے ہی اگر میں اسے ناراض کربیٹھا تو میرا تو خرچہ پانی بند ہوجائیگا اس نے رئیس کے بیٹے سے کہا کہ یار میں تو مذا ق کررہا تھا تم بلکل ٹھیک بات کررہے ہو رئیس کے بیٹے نے اپنی ماں کو امام مسجد کے گھر بھیجا تاکہ وہ اس کے رشتے کی بات کرسکیں امام مسجد نے کہا کہ مجھے سوچنے کا وقت چاہیے میں اپنی بیٹی کی مرضی ضرور پوچھوں گا مولوی صاحب اپنی بیٹی کے پاس آئے اور کہا کہ گاؤں کے رئیس کی بیوی اپنے بیٹے کیلئے ہمارے گھر آئی تھی میں تم سے تمہاری مرضی پوچھنا چاہتا ہوں کلثوم نے کہا کہ ابا جان وہ ایک عیاش اور بدکار انسان ہے

اگر آپ میری مرضی پوچھنا چاہتے ہیں تو میں ایسے شخص کی شریک حیات نہیں بن سکتی مولوی صاحب نے کہا کہ بیٹی تم نے میرے دل کی باتیں کرڈالی مجھے بھی و ہ آدمی پسند نہیں ہے ۔میں بس یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ تم کون سا فیصلہ کرتی ہو کچھ دن بعد رئیس کے بیٹے نے اپنی ماں کو دوبارہ مولوی صاحب کے گھر بھیجا مولوی صاحب نے صاف انکار کردیا اس کی ماں واپس گھر لوٹ گئی اور اپنی بیٹے کو سب بتا دیا رئیس کا بیٹا غصے سے پاگل ہوگیا اس نے اپنی ماں سےکہا کہ اس لڑکی نے مجھے ٹھکرا کر بہت بڑی غلطی کردی میں اس کو زمانے میں ذلیل اور رسوا کردوں گا اس کی ماں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا اگر آج تم ایک سلجھے ہوئے انسان ہوتے تو وہ لڑکی تجھے کسی صورت بھی انکار نہ کرتی ہمارے پاس مال ودولت بھی ہے ایک اچھا گھر بھی ہے مگر ایک عورت مال ودولت اور گھر کو بعد میں دیکھتی ہے پہلے یہی چیز دیکھتی ہے کہ وہ آدمی کیسا ہے جو اس کا ہمسفر ہوں گا رئیس کے بیٹے کو اپنی ماں پر بھی غصہ آیا وہ سچائی سننے کا عادی نہیں تھا ایک دن کلثوم گلی سے گزر رہی تھی کہ اچانک ہی یہ اس کے سامنے آگیا ۔

اس نے کلثوم سے کہا کہ اب ذلت اٹھانے کیلئے تیار ہوجاؤ میں تجھے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا کلثوم نے کہا کہ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے اگر وہ کسی کو ذلیل کرنا چاہیں تو کوئی اسے معزز نہیں بناسکتا اور اگر وہ کسی کی عزت کی حفاظت کرنا چاہے تو کوئی دوسرا اسے ذلیل نہیں کرسکتا یہ کہہ کر کلثوم چلی گئی مگر رئیس کا بیٹا اب کلثوم کو بدنا م کرنے کے منصوبے سوچنے لگا وہ کلثوم کو ذلیل کرنے کیلئے عجیب وغریب منصوبہ بنا رہا تھا کبھی وہ خود سے خط لکھ کر یہ مشہور کردیتا کہ یہ کلثوم نے مجھے خط بھیجیں ہیں کبھی وہ کلثوم پر جھوٹے الزام لگایا تاکہ وہ مجھے رات کو اکیلے میں ملنے آتی ہے اس نے جوممکن تھا اس نے کیا مگر گاؤں کے سب لوگ جانتے تھے کہ یہ صرف الزامات ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ایک دن مولوی صاحب اپنے چچازاد بھائی کے بیٹے کی شادی میں شرکت کرنے کیلئے دوسرے گاؤں گئے

کلثوم اور اس کی ماں بھی مولوی صاحب کے ساتھ ہی تھی ایک ہفتے بعد مولوی صاحب کا خاندان واپس آیا تو کلثوم کو پیٹ میں ہلکا سا درد محسوس ہوا مولوی صاحب گاؤں کے ایک حکیم کے پاس گئے تو اس نے کچھ ادویات دے دی اور مولوی صاحب کو تسلی دی کہ آپ کی بیٹی جلد ٹھیک ہوجائیگی پانچ مہینے بعد کلثوم کو دوبارہ درد ہوا اس دفعہ بہت شدید درد تھا جس کیوجہ سے کلثوم بے ہوش ہوگئی کلثوم کا پھٹ پھول چکا تھا مولوی صاحب کلثوم کو دوبارہ حکیم کے پاس لے گئے تو حکیم نے دعویٰ کردیا کہ کلثوم حاملہ ہوچکی ہے کیونکہ پیٹ کے اندر بچہ حرکت کرتا دکھائی دیتا ہے یہ وہ دور تھا جس میں الٹراساؤنڈ اور ایکسرے کی سہولت موجود نہیں تھی مولو ی صاحب شرم سے پانی پانی ہوگئے اور کلثوم کو ساتھ لیکر گھر روانہ ہوئے رئیس کا بیٹا حکیم کے پاس آیا اور اس سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب کی بیٹی کو کیا تکلیف ہے

حکیم نے رئیس کے بیٹے کو سب بتادیا رئیس کے بیٹے کی خوشی کی انتہا نہ رہی وہ تو اسی موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی طرح کلثوم کو بدنام کیا جاسکے اس کے دماغ میں ایک شیطانی ترکیب آئی اس نے ایک مگر مولوی کا جھکا ہوا چہرہ دیکھ کر سب سمجھ گئے انہوں نے نہ صرف مولوی صاحب کو مسجد کی امامت سے ہٹا دیا بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ دو دن کے اندر وہ گاؤں چھوڑ کر چلا جائے کیونکہ ہمارے گاؤں میں ایسے بے حیاء لوگوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے کلثوم اپنی ماں کے سامنے قسمیں اٹھا کر یہی کہتی رہی کہ مجھے کسی نامحرم نے ہاتھ تک نہیں لگایا مولوی صاحب تلوار لے کر آئے اور کلثوم کا سرقلم کرنا چاہا مگر اس کی ماں سامنے آگئی اس نے کہا کہ میں یہ ثابت کروں گی کہ میری بیٹی بے قصور ہے کلثوم کی ماں نے ایک حکیم کا نام سنا تھا جو دانائی میں بہت شہرت رکھتا تھا ۔وہ دونوں کلثوم کو اس کے پاس لے گئے حکیم نے دیکھا کہ کلثوم کا پیٹ پھولا ہوا تھا

او رپیٹ کے اندر حرکت بھی تھی اس نے ایک کمرے میں کتا ذبح کیا اور دوسرے کمرے میں بکرا ذبح کردیا اس نے بکرے کی گ و شت سے مولوی صاحب اس کی بیوی اور کلثوم کی دعوت کی دعوت کے بعد حکیم نے کلثوم سے پوچھا کہ کبھی تم نے بغیر برتن کے کہی سے پانی پیا تھا کلثوم نے بتایا کہ ایک دن ہم شادی پرجارہے تھے کہ گرمی کیوجہ سے مجھے سخت پیاس لگی تو میں نے ایک نہر سے چلو بھر کر پانی پی لیا تھا حکیم کلثوم کو اسی کمرے میں لے گیا جہاں کتا ذبح کیا گیا تھا کلثوم نے کراہت بھرے لہجے میں کہا کہ کتے کو کس لئے ذبح کیا گیا حکیم نے کہا کہ تمہارا علاج اسی وقت ممکن تھا جب تم کو کتے کا گ و شت کھلایا جاتا

تم نے ابھی جو گ و شت کھایا ہے وہ کتے کا تھا کلثوم نے جیسے ہی یہ سنا تو اس کا جی متلانے لگا اور اسے ایک زوردار قے آئی اس کے پیٹ سے پہلے بہت سا پانی نکلا اس کے بعد بہت بڑا سامینڈک نکلا مولوی صاحب نے حکیم سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے حکیم نے مولوی کو بتایا کہ جب کلثوم نے نہر سے پانی پیا تھا تو اس پانی میں ایک چھوٹا سا مینڈک جو اس وقت ٹیڈ پول کی شکل میں تھا ۔پیٹ میں چلا گیا وہ پیٹ میں ہی پرورش پاتا رہا اور جب وہ پورا مینڈک بن گیا تو پیٹ پھولنا شروع ہوگیا بلکل اسی طرح جیسے ایک عورت امید سے ہواس کے بعد پورے گاؤں والوں کو جب اس حقیقت کا پتہ چلا تو وہ مولوی صاحب سے معافی مانگنے اس کے گھر آئے مگر اس واقعے کے بعد مولوی صاحب پوری زندگی اپنی بیٹی سے معافی مانگتے رہے کہ بیٹی مجھے معاف کردینا میں نے تمہارے کردار پر شک کیا تھا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *