بے حجاب عورت نے شرمندگی سے کہا :

وہ خاتون ابھی تک مکمل طور پر بس میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ اچانک ڈرایور نے بس کا دروازہ بند کر دیا اور اسکی چادر دروازے میں پھنس گئی۔
اسی اثنا بس میں موجود ایک بے حجاب عورت، بلند آواز سے کہنے لگی : “اسے دیکھو، یہ بھی لباس پہننے کا کوئی طریقہ ہے، سچھ میں بعض لوگ تو اپنے آپ کو اذیت دینا پسند کرتے ہیں۔

محجبہ خاتون اٹھ کر، اس عورت کے بغل والی خالی سیٹ پر بیٹھ گئی اور آہستہ آواز میں تا کہ صرف اسے ہی سنائی دے ، کہنے لگی :…”میں حجاب اس لیے کرتی ہوں تاکہ اگر کبھی تمھارا شوھر اپنی نگاھوں کو کنٹرول نہ کرسکے ، تو تمھارا گھر اور تمھاری زندگی بر باد نہ ہو جائے،

تمھارا شوھر تم سے بیزار نہ ہو جائے ، اسکی محبت اور توجہ تمھارے طرف کم نہ ہو جائے ۔

میں بھی ایک عورت ہوں مجھے بھی اپنی خوبصورتی پر توجہ کی ضرورت ہے، لیکن میں گرمیوں میں گرمی کی شدت اور سردیوں میں اپنی چادر کو تیز ھواوں اور شدید برف و باران سے بچانے کی اذیتیں برداشت کر لیتی ہوں،
تا کہ تمھارے گھر کا سکون محفوظ رہے ، اور میں اسے اپنا وظیفہ سممجتھی ہوں ۔

یہ کہہ کر محجبہ خاتون کچھ لمحوں کیلئے خاموش ہو گئی تا کہ شاید اسے کوئی جواب ملے ۔۔۔ پھر کہنے لگی،…” میرا حق جامعہ میں یہ نہیں کہ میرے جامعہ کی خواتین اپنی کلر فل بالوں کو نکال کے اور رنگ برنگی بدن نما لباس پہن کر میرے شوھر کی محبت اور توجہ کو اپنی طرف جذب کرے ۔

اب آپ انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ آیا مجھے آپ کے لباس پہننے کے طریقے پر اعتراض کرنا چاہیے یا آپ کو میرے لباس پر ؟

بے حجاب عورت نے شرمندگی سے کہا : میں نے آج تک اس اینگل سے حجاب کے مسئلہ پر غور نہیں کیا تھا۔

غیر دینی اور الحادی مکاتب فکر، عورت کی زنانگی اور اسکی جنسیت کو جامعہ میں ایک پروڈکٹ کے بطور پیش کرنا چاہتی ہیں،

جبکہ اسلام چاہتا ہے کہ دنیا اسکی انسانیت کو دیکھے نہ کہ اسکی جنسیت اور زنانہ پن کو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *