بیوی کے سلوک سے تنگ آکر شوہر کچھ دنوں سے اکیلا ہی سونے لگا

تم میری ہم سفر ہو۔ بیوی ہو میری کیوں ہر وقت جھگڑا کرتی ہو۔ جب دیکھو تم فضول بولتی رہتی ہو۔ یار کیوں کرتی ہوایسا شہیر فورن پہ بات کرتے ہوئے اپنی بیوی اریقہ کو سمجھا رہا تھا اریقہ غصے سے بولی دیکھو شہیر بیوی ہوں تو بیوی ہی بنا کر رکھو مجھے سمجھے میں کوئی ملازمہ نہیں ہوں تمہاری اپنی ماں اور بہن بھائی کو کہہ دو اپنے کام خود کیا کر یں شہیر نے غصے سے فون بند کر دیا سر پکڑ کر بیٹھ گیا کیا کروں اس عورت کا ۔ شادی ہوئے ابھی آٹھ مہینے ہوئے ہیں میرا جینا حرام کر رکھا ہے اس عورت نے اریقہ اپنے کمرے میں تھی ساس بیمار تھی کوئی پرواہ نہیں ٹی وی آن کیا ہوا ڈرامہ دیکھ رہی ہے نند نے آکر بتا یا بھا بھی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

ہمارے ساتھ ہسپتال چلو اریقہ نے سر پہ ہاتھ رکھا بہن میرے تو خود سر میں بہت درد ہے مجھ سے نہیں جا یا جا تا جاؤں تم لوگوں کے ساتھ بڈھی کا ہر دوسرے روز یہی تماشہ ہوتا ہے کبھی بیماری ہو جا نا کبھی کچھ کبھی کچھ۔ میرے شوہر کےآدھے سے زیادہ تنخواہ کے پیسے تو اس کے دوا پہ خرچ ہو جاتے ہیں اریقہ خوبصورت تھی پڑھی لکھی تھی لیکن بد اخلاق بد زبان تھی وہ مطلب پر ست صرف اپنی ذات تک سوچتی تھی شہیر کو فون کیا اسے کہنے لگی میرے لیے ہر مہینے الگ پیسے بھیجا کرو۔ شہیر نے سمجھا یا اریقہ تم کو امی پیسے دیتی تو ہیں تم کو اور کیا چاہیے ۔

اریقہ نے ضد کرتے ہوئے کہا نہیں آپ مجھے الگ سے بھیجیں۔ شہیر بیرون ملک میں جاب کر تا تھا وہ اریقہ کی وجہ سے بہت پریشان تھا اریقہ کو کس چیز کی کمی تھی سب کچھ تو تھا اریقہ کے پاس پھر بھی وہ کیوں ایسا روہ رکھتی تھی شہیر نے ماں کو فون کیا امی اریقہ کو پیسے دے دیا کر یں الگ سے ماں نے بتا یا بیٹا وہ کون سا ہم سے کوئی بات کرتی ہے میرا حال تک نہیں پوچھتی۔ اپنے کمرے میں رہتی ہے کھا نا کھا کر پھر کمرے میں چلی جاتی ہے اسے کوئی فکر ہی نہیں گھر آباد کرنے کی شہیر نے ماں سے کہا امی آپ بتائیں کیا کروں اس کا میں تو اس کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں ۔

اس کو میری کسی بات کا اثر ہو تا ہی نہیں دل چا ہتا ہے طلاق دے دوں اسے ماں نے سمجھا یا پتر تو پر دیس میں ہوتا ہے نہ پریشان ہوا کر وہ نا سمجھ ہے وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ جائے گی بے وقوف سی ہے خود وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ جائے گی طلاقی دینے کی کبھی کوئی بات نہ کر نا شہیر چا ہتا تھا اریقہ گھ سنبھالنے سب کے ساتھ پیار سے بات کرے ذمہ دار بنے لیکن اریقہ اس بات کو سمجھتی کہاں تھی وہی کرتی تھی جو اس کا دل چا ہتا ایک دن نند نے بنا پو چھے اس کے جہیز کی کوئی چیز استعمال کر لی اس بات پہ اریقہ نے بہت تماشہ کیا نند کو گالیاں دی بر ا بھلا کہا محلے والوں نے تما شہ دیکھا ساس نے ہاتھ جوڑے اریقہ کے سامنے خدا کے واسطے اریقہ بیٹی معاف کر دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *