پندرہ سالہ لڑکی
سردی کا موسم تھا ہر طرف دھند نظر آرہی تھی تہجد کے وقت مولوی صاحب منزل کی طرف رواں دواں تھے بسم اللہ پڑھ کر انہوں نے مسجد کا دروازہ کھو لا جیسے ہی وہ مسجد میں داخل ہوئے انہیں مسجد کے بر آمدے میں چادر اوڑھے کوئی شخص لیٹا ہوا دکھائی دیا پہلے تو حیران ہوئے کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے پھر وہ آگے بڑھے انہوں نے اس وجود کو ہلا کر کہا اٹھو بھائی جان یہ مسجد ہے سونے کی جگہ نہیں مگر وہ وجود پہلی ہلانے پر ٹس سے مس نہ ہوا مولوی صاحب نے دوبارہ اسے ہلا یا اور کہا اٹھو بھائی یہاں کیوں سو رہے ہو ان کی اتنی بات کرنے کی دیر تھی۔
کہ اس نے اپنے اوپر سے چادر اٹھائی مولوی صاحب کی حیرانی سے ماتھے پر بل پڑے انہوں نے دیکھا کہ پندرہ سولہ سال کی لڑکی صحن میں بیٹھی تھیں بال بکھرے ہوئے تھے منہ پر ایسے نہیں جانتے تھے جیسے کسی نے مارا ہو اس کی آستین پھٹی ہوئی تھی اور آستین سے یوں خ و ن بہہ رہا تھا جیسے گہرا لگاؤ مولوی صاحب نے حیرت سے پوچھا تم کون ہو بیٹی یہاں کیوں بیٹی ہوں وہ لڑکی ڈر گئی کچھ نہ بولی مگر پھر مو لوی صاحب کے دوبارہ پوچھنے پر بتانے لگی مرا نام ماریہ ہے اور میں ہارون آباد کے گاؤں سے آئی ہوں مولوی صاحب نے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے بیٹی لیکن تم یہاں کیوں بیٹھی ہو صاحب ہمارے گاؤں میں میرے بھائی سے گ ن ا ہ سر زد ہوا ہے جس کے بدلے میں پنچا یت نے مجھے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
میں تو اس چیز کے لیے تیار نہیں تھی گھر والوں نے مجھے بہت مارا میں نہ مانی بس وہاں سے بھاگ آ ئے اور مسجد میں بنا لے لیں یہ تو اللہ کا گھر ہے یہاں سے تو کوئی نہیں نکال سکتا مولوی صاحب لڑکی کی باتیں سن کر سوچ میں پڑ گئے سوچنے لگی کہ اس طرح اس لڑکی کو یہاں نہیں رکھا جا سکتا انہوں نے اسے کہا بیٹی تو خود کو چادر میں لپیٹ لو میرے ساتھ چلو لڑکی نے ایسا ہی کیا لڑکی کے پاس ایک چھوٹی سی گھٹڑی تھی اس نے ساتھ اٹھا لی اور مولوی صاحب کے پیچھے چل دی مولوی صاحب اسے اپنے گھر لے گئے گھر میں ان کی بیوی کا بیٹا تھا مولوی صاحب کی بیوی پہلے تو لڑکی کو دیکھ کر پریشان ہو گئیں مگر جب انہوں نے ساری بات بتائی اور کہا اب یہ ہمارے ساتھ رہے۔
گی اور تم اس کا بیٹیوں کی طرح خیال رکھوں گی ان کی بیوی بھی نہا یت نیک دل عور تھی اس نے اپنے شوہر کی ہا میں ہاں ملائی مولوی کا بیٹا بھی وہیں موجود تھا اس نے جب ان کو دیکھا اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اس نے اتنی معصومیت آج تک کسی چہرے پر نہیں دیکھی تھی وہ ڈری ڈری لڑکی اسے آسمان سے اتری پڑی لگی مولوی صاحب کی بیوی اسے گھر کے خالی کمرے میں لے گئی اور اسے کہا اپنا سامان مجھے دے دو گھر میں رکھا تو ضرور ہے مگر کل کو کوی اونچ نیچ ہو گی ت وہم کیا کر یں گے اس سے بہتر سے اس کا نکاح علی سے کروا دیں تا کہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہو مولوی صاحب کو بیوی کی بات ٹھیک لگی کیونکہ وہ بچی انہیں بھی معصوم اور پیاری لگی تھی مگر پھر بھی زمانے کی ہوا لگتے دیر نہیں لگتی۔
Leave a Reply