اس بیچاری کی قسمت ہی ایسی تھی کہ پہلی ہی رات اسے معلوم ہوگیا کہ اس کا شوہر خوشی نہیں دے سکتا
میں نے اسے بہت روکا کہ اس جہ۔نم میں واپس مت جاؤ وہ نہ روکی دوسری مرتبہ ط لا ق کی ذل۔ت میں ب۔رداشت نہیں کرسکتی۔ میرے بھائیوں نے بہت طع۔نے سن لئے میرا انصاف میرا رب کرے گا وہ روت۔ی دھوتی اس م و ت کہ کنوئیں میں چلی گئی ۔اس کا یہی کہنا تھا ساتھ وہ رہا میرے چند روز محبت کرنے کیلئے باعزت لے گیا تھا گھر سے بے عزت کرنے کیلئے خانم کون تھی حسن کا پیک۔ر سگ۔ھڑاپے کی مثال جس کہ ہاتھ کی ل۔ذت انگلیاں چاٹ۔نے پر مجبور کردیتی۔جسے پھولوں اور بچوں سے عشق تھا۔
بہن بھائیوں کے بچوں پر ج۔ان لٹاتی ماں کی دلاری بھائیوں کی پیاری اپنے پرائے سب اس کے گرویدہ ۔مگر بنانے والے نے ہر گ۔ن دیکر نصیب میں اپنے گھر کا سکھ نہ لکھا ہر ایک کی خدمت گزار اس دنیا سے صرف دکھ اور اپنے پرائے کے طع۔نے لیکر گئی ۔شادی کے دوسرے مہینے خانم کو یہ باور ہوگیا کہ اس کا شوہر اسے وہ سکھ نہیں دے سکتا جو ایک عورت کو چاہیے ہوتے ہیں اس نے اپنا شرعی حق استعمال کرتے ہوئے ط لا ق مانگ لی بھائی بیرسٹر تھا اس نے بھرپور ساتھ دیا اور خاندان کی مخالف مول لیکر خانم اپنے گھر آگئی مگر یہاں اس کا جینا دوبھر ہوگیا۔ طلاقن کی بازگ۔شت نے اسے ڈپ۔ریشن کا مریض بنا دیا اور اس کا بی پی ہا۔ئی رہنے لگا۔ وقت کے ساتھ عمر بھی ڈھلنے لگی۔ ایسے میں بھابھی کے بھائی کا رشتہ خانم کیلئے منظور کرلیا گیا ۔ جس کی بیوی ایک پانچ سال کا بچہ چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔ خانم اس بے جوڑ شادی پر تیار نہ تھی ۔ مگر اس دفعہ بیرسٹر بھائی ساتھ نہ دے سکا۔ خانم کہ اح۔تج۔اج کو خاط۔ر میں نہ لایا گیا اور اسے بھابھی کے بھائی کیساتھ بی۔ا۔ہ دیا گیا جو اس کا ماموں زاد بھی تھا اور بہت سے وعدے کرکے اسے نکاح کیلئے تیار کیا ۔مگر پس پردہ کہانی کچھ اور تھی شادی کی پہلی رات ہی اسے یہ ب۔اور کرادیا گیا کہ وہ بچے کی خواہش نہ پالے کیونکہ اس کے شوہر کو اپنےبیٹے کا شری۔ک پیدا نہیں کرنا تھا۔ اسی لئے اسے طلاقن سے شادی کی گئی۔
تاکہ وہ اس وٹے سٹے کی شادی کو چپ چاپ نبھائے اور اس ظ۔الم کہ بچے کی آیا بن کررہے یوں خانم کی درد بھری زندگی کا آغاز ہوگیا۔وہ سہاگن نہ بنی صرف بچے کی آیا اور سسرال کی مفت کی غلام بن گئی ۔ لاکھوں کا جہیز لانے والی کی زندگی ایک کمرے میں گزرنے لگی ۔ ایکسویں صدی میں جسے پانی کی موٹر بھی نصیب نہ تھی آسائشات تو دور کی بات وہ بنیادی ضروریات سے بھی محروم تھی ۔ غسل خانہ بھی میسر نہ تھا اسے لوگوں کے گھر جانا پڑتا اور رات کو حاجت نہ ہو وہ شام ہی پانی پینا بند کردیتی کوئی کربلا سی کربلا تھی ۔ مگر ایک فطری خواہش کی کہ مجھے ماں بننے کے حق سے محروم نہ کرو ۔مگر اسکی خوب دھنائی کی گئی جیسے اس نے کوئی گ ن ا ہ کی بات کی ہو اس کا جیٹھ اسے جتلاتا ہم نے طلاقن کو اپنے گھر لاکر احسان کیا ہے ایسے میں جب بدن کی چوٹیں اس کے بس سے باہر یو جاتیں تو وہ بھائی کے گھر آجاتی مگر یہاں بھابھی کو یہ فکر کھائے جاتی کہ اس کا بھائی اکیلا ہے ۔ اسے کھانا دینے والا کوئی نہیں اور وہ واپس اسی ج۔ہنم میں جلنے چلی جاتی ۔ صرف مجھے پتہ تھا وہ عظیم عورت اپنے بھائیوں کی لاج اپنا آپ جلا کر رکھ رہی ہے ۔
اپنا سامان بیچ کر شوہر اور اس کے بچے کو پا ل رہی ہے آہستہ آہستہ بنک بیلنس ختم ہونے لگا خانم کا وجود بھی سارے خاندان کو ک۔ھٹک۔ھٹنے لگا ۔اس دفعہ خانم گم صم تھی ۔ میرے اصرار پر روپ۔ڑی ۔ آسمان کی طرف جھولی اٹھا کر بولی میرا انصاف میرا رب کرے گا آخر اس نے میرے نصیب میں کچھ تو لکھا ہوگا۔ مجھے پھول پسند تھے میری شادی گ۔ٹر میں ہوگئی ۔میں پھولوں کی خوشبو سے محروم ہوگئی مجھے بچے پسند تھے مگر ان ظ۔ا۔لموں نے میری جھولی میں ایک بچہ بھی نہ ہمک۔نے دیا۔ میں اپنے تصوروں میں اپنے بچے کیساتھ زندگی گزارتی رہی ان کے بچے کا گ۔ند صاف کرکے ایک ماں کی طرح پالا۔مگر اس نے کبھی حال بھی نہ پوچھا آج میں تنہا ہوں بھائی کے گھر میں سک۔ھ کا سانس لے رہی ہوں مگر بھابھی کہتی کچھ نہٰں مگر اس کی آنکھوں میں بھائی کی محبت ہرپل یہ پوچھتی ہے ۔کہ کب واپس جاؤگی اور اب جب سے میرے پاس پیسے ختم ہوئے ہیں گھر ک۔ھنڈر بن گیا ہے جہاں ج۔انور بھی چند دن نہ گزارسکے ۔ میں ت۔ڑپ کر رہ گئی اور کہا میں تمہیں آزاد کرواتی ہوں ۔تمہاری ہر شے واپس دلواتی ہوں۔
مگر اس صبر کی مثال نے بھائیوں کی لاج کیلئے خاموشی کی بکل تان لی اور مجھے بھی لب سینے پر مجبور کردیا کہ اب اس عمر میں دنیا کا تماشہ نہیں بن سکتی ۔شوہر کو صرف روٹی چاہیے تھی وہ خود ہی اپنی ڈاکٹر بنی رہی شام کو ٹھنڈے پانی سے کپڑے دھوئے تو طبیعت زیادہ خراب ہوگئی شوہر کو کھانا دینے کے بعد کہا مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ مگر اس نے چپ چاپ سون کی ہدایت کی کہ صبح دیکھیں گئے ۔چند کوس دور جیٹ۔ھ کے محل میں تین تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔ مگر وقت کے فرعون کسی مدد کیلئے تیار نہ تھے شوہر خود موبائل پر مصروف ہوگیا ۔چکر اتے سر کے ساتھ خانم اٹھی۔ مگر پیروں پر کھڑی نہ ہوسکی اور گر گئی گ۔رنے سے سر پر چ۔وٹ لگی اور خ و ن ابلنے لگا جب کمرے میں خ و ن پھیل گیا
تو اس کے شوہر نے اپنےبھائیوں کو فون کیا جنہوں نے آکرا اسے م۔ردہ قرار دیا اور کسی ڈاکٹر پاس لے جانے کی زح۔مت نہ کی اور ایک جیتا جاگتا وجود ظ۔الموں کی بے حسی م۔ردہ بن گیا اس کے گھر والوں کو اطلاع بھی صبح دس بجے دی گئی میرے واویلے کے باوجود پ۔وسٹ م۔ارٹ۔م نہ کروایا گیا کہ اس کے بھتیجے اپنے ماموں کے ساتھ تھے ۔اور کہنے لگے م رنے والی م ر گئی ہماری ماں یہ ب۔رداشت نہیں کرسکتی یوں۔ خانم لوگ کیا کہیں گے اور دنیا داری نب۔ھ۔اتی شوہر کے گھر سے اپنا جنازہ اٹ۔ھوا کر بھائیوں کی ل۔اج رکھ کہ اپنے دک۔ھوں سمیت من۔وں مٹی تلے سکون سے سوگئی ۔
Leave a Reply