تین مکئی کے دانے
تاریخی واقعات میں ایسے اسباق چھپے ہوتے ہیں جو زندگی کے بہترین اصول دے دیتے ہیں یہاں تک کہ انسان کو اس کی زندگی میں پیش آنے والے کئی مقامات پر فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں ۔۔ایک عقلمند بابا نے تین آدمیوں کو تین تین مکئی کے دانے دیے اور بولا کہ جاؤ اسسے اپنا گزاراہ چلاؤ۔ پہلے آدمی نے تینوں مکئی کے دانے ایک گرم پانی کے پیالے کےاندر گھولے، شوربہ بنایا اور پی گیا۔ دوسرے نے اس کی بے
صبری سے سبق حاسل کیا اور اپنے تین دانے جا کر باہر مٹی میں دبا دیے۔ ایک مہینہ وہ ان کو پانی دیتا رہا اور ان کی اچھی دیکھ بھال کرتا رہا۔ ایک ماہ بعد اس نے وہ پودے دیکھے تو مکئی کے تین تنے نکل چکے تھے۔ اس نے مکئی کے تینوں پودوں پر سے تمام خوشے اکٹھے کیے اور اس کا تین دن کا گزارہ چل گیا۔ تین دن اس نے دو وقت کی روٹی کا سامان اس ایک ماہ کی محنت سے کر لیا۔تیسرا آدمی اپنے باقی دونوں دوستوں کی دونوں دوستوں کی بیوقوفیوں کو چپ چاپ دیکھتا رہا اور ان سے سیکھتا رہا۔
اس نے تینوں دانے بو دیے اور ایک ماہ بعد جب اس پر چھلیاں نکل آئیں تو اس نے ایک پودہ لگا رہنے دیا اور اس سے دانے اتار لیے اور پھر سے زمین میں بو دیے۔ دوسرے پودے سے ایک چھلی اتاری اور اپنی محبوبہ کو کھلائی اور تیسرے پودے سے جوچھلیاں اتاری وہ خود تھوڑی تھوری کر کے کافی دن چلا لیں۔ ایک ماہ بعد پھر سے اور ڈھیر سارے پودے نکلا آئے اور اس نے مکئی کا کھیت لگا لیا۔ وہ ہر مااہ اپنے کھیت کو مزید وسیع کرتا گیا اور اس نے گاؤں کا سب سے بڑا کھیت لگا لیا۔اسی محبوبہ سے شادی کی اوراپنی چھلیوں کے کھیت کی وجہ سے اسے دوبارہ کبھی بھوکا نہیں سونا پڑا۔۔۔تم نے اسباب پہ بھروسہ کیا تھا ۔میں نے مسسب الاسباب پہ۔۔ہم دونوں ایک ہی گاوں سے تھے ۔۔لیکن ہم میں بہت فرق تھا ۔۔میرے پاس ڈگری تھی ۔ میں انگلش بول سکتا تھا ۔
لاہور کے ایک ملٹی نیشنل ادارے میں ملازم تھا ۔ملازم بھی کیا غلام ہی سمجھِں ۔۔گاوں جاتا تو لوگ رشک کرتے ۔ابا سینہ چوڑا کر کے چلتے ۔لیکن وہ نہین جانتے تھے کہ ان کے اس سینہ چوڑا کرنے کی قیمت میری غلامی ہے ۔صبح نو سے پانچ کی اوقات تھی ۔ لیکن یہ صرف پیپرز مین لکھے جانے والے اوقات تھے ۔حقیقت تو یہ تھی کہ میں اور میرے جیسے ہمہ وقت ملازم ہوتے ہیں ۔نوکری ختم ہونے کے بعد بھِی نوکر ہی ہوتے ہیں ۔کبھی کبھی تو اپنا نام بھی بھول جاتا ہے ۔مصنوعی مسکراہٹیں ۔مصنوعی ماحول ۔لیکن ابا بہت خوش تھا ۔اس نے میری تعلیم کے لئَے جو زمین بیچی تھی میرے بابو بن میرے بابو بن جانےبن جانے سے وہ قیمت وصول ہوگئِ تھی ۔
گاوں جاتا تو مستقیم کا بھِی خیال آتا ۔لاہور میں کبھی اتنا ٹائم ہی نہیں ملا کہ اس سے کوئی کانٹیکٹ کرتا ۔ویسے بھی بے چارہ ایک معمولی سےمدرسے کا فارغ التحصیل لاہور میں کیا کرلیتا ؟آخری بار سنا تھا کہ کسی نئی سوسائٹی میں بچوں کو جاکر قرآن پڑھاتا ہے ۔ویسے بھی مستقیم سے ملنے سے میرے کون سے کانٹیکٹ بننے تھے ۔اس بار گاوں گیا تو سوچا پرانے دوستوں سے ملاقات ہوجائَے ۔ویسے بھی یہ گاوں ہی تھا جہاں تھوڑی بہت ٹور بن جاتی ہے ۔بھرم رہ جاتا ہے ۔ہماری زندگی بھِی ٰعجیب ہوجاتی ہے ۔شہر اور گاوں ہر جگہ اجنبی بن جاتے ہیں ۔میں گھر سے نکلا تو سامنے سے مستقیم آرہا تھا ۔وہی دوستانہ مسکراہٹ اور صحت پہلے سے کافی بہتر ۔میری آنکھوں میں کوے کے پنجوں کے نشان گہرے ہوگئے ،بلکہ پتا نہیں کیوں ایسا لگا جیسے کوے نے چونچ بھی ماری ہو ۔ دل چاہا مستقیم شکائِتیں کرے ۔کہے کہ اس کا لاہور میں گزارہ نہیں ہوتا ۔میں اس کی نوکری کا کوئی بندوبست کردوں تو وہ احسان مند ہوگا ۔پھر میں اس سے کہوں کہ پگلے ۔یہ کاروپوریٹ کلچر ہے ۔تمہیں اپنی داڑھی منڈوانی پڑے گی ۔رگڑ رگڑ کر شیو کرنی پڑے گی ۔ٹخنوں سے اونچی شلوار اتار کر کریز والے پتلون پہننے پڑیں گے ۔تم کرلو گے ؟پھر میں تمسخر سے ہنسوں گا ۔کہوں گا کہ اور ہاں اس کے لئے ایک اچھی صورت والی ڈگری بھیِ چاہیے ۔کاش تمہارا ابا بھِی تمہیں قران پڑھانے کی بجائے کوئی ڈگری دلا دیتا ۔کیسے ہو مستقیم ؟اللہ کا بڑا کرم ہے ۔۔اچھا کب آئے لاہور سے ؟
بس جمعرات کو آیا تھا ۔انشاللہ اتوار کو واپسی ہے ۔۔کیا کر رہے ہو آج کل ؟ بس دو تین چھوٹی دکانیں لی ہوئی ہیں ۔دکانیں ؟میں نے حیرت سے پوچھا ؟کہاں کس جگہ ؟بس بھائی ایک دکان ارم شاپنگ مال میں ہے ۔دوسری فردوس شاپنگ سینٹر اور تیسری گلاب سینٹر میں ۔مجھَے لگا جیسے اس نے میرا مذاق اڑایا ہو۔۔تو قران پڑھانا چھوڑ دیا ؟نہیں بھائی ۔۔کیسے چھوڑ دوں ۔اللہ نے اس کے ذریعے ہی تو رزق کھولا ہے ۔لیکن ان دو تین دکانوں کے لئَے تو بہت سرمایہ چاہیئے ۔بس اللہ نے بندوبست کردیا سارا ۔برکت دی ۔اس کا کرم ہے ۔لیکن کیسے ۔۔؟بات یہ ہے بھائی ۔۔اس نے میرے کاندھے پے ہاتھ رکھا ۔۔تم نے اسباب پہ بھروسہ کیا تھا
Leave a Reply