بنی امیہ میں موسیٰ بن محمد سلمان ہاشمی سب سے زیادہ عیاش تھا اس کے پاس پانچ سو کنواری لونڈیاں تھی

بنی امیہ میں موسٰی بن محمد بن سلیمان ہاشمی سب سے زیادہ عیاش اور بے فکر تھا۔ رات دن کھانے پینے پہننے اور خوبصورت لونڈیوں کے ساتھ مشغول ہونے اور آرام طلبی اور تن پروری کے سوا کوئی کام دین و دنیا کا نہیں کرتا تھا اور حسنِ صورت بھی اللہ تعالٰی نے اسے اس درجہ عطا فرمایا تھا کہ دیکھنے والا بے اختیار سبحان اللہ بول اٹھتا تھا۔

چہرہ ایسا روشن تھا جیسے چودھویں رات کا چاند غرض اللہ تعالٰی نے اس کو ہر طرح کی نعمت دنیاوی مرحمت فرمائی تھی سال بھر میں تین لاکھ تین ہزار دینار (تقریبا ایک ارب اکیاسی کروڑ اسی لاکھ روپے) کی آمدنی تھی ان سب کو اپنے عیش و عشرت میں اڑا دیتا تھا۔ اس نے ایک بہت بلند بالا خانہ اپنے رہنے کے لئے بنا رکھا تھا اور اس کے دونوں طرف دریچے تھے ایک طرف کے دریچے تو شارع عام کی طرف کھلتے تھے جس سے شام کو بیٹھ کر آنے جانے والوں کی سیر کرتا تھا اور دوسری طرف کے دریچے چمنستان میں تھے اس طرح بیٹھ کر چمنستان سے دل بہلاتا تھا اور اس بالا خانہ کے اندر ایک ہاتھی دانت کا قبہ چاندی کی میخوں سے جڑا ہوا تھا اور سونے سے ملمع کیا ہوا تھا اور اس میں ایک نہایت قیمتی تخت تھا اس پر وہ جلوہ افروز ہوتا اور بدن پر نہایت بیش بہا کپڑا اور سر پر موتیوں کا جڑا عمامہ ہوتا اور ادھر ادھر بھائی برادر اور یاران جلسہ کا جمگھٹا اور پیچھے غلام و خادم کھڑے رہتے اور قبہ سے باہر گانے والی عورتیں رہتیں۔ قبہ میں ان عورتوں میں ایک پردہ حائل تھا، جب چاہتا انہیں دیکھتا اور جب راگ کو دل چاہتا تو پردہ ہلا دیتا وہ گانا شروع کر دیتیں

اور جب بند کرنا چاہتا تو پردہ کی طرف اشارہ کر دیتا وہ چپ ہو جاتیں تھیں۔ غرض اسی شغل میں اس کی رات گزرتی۔ رات کو یاران جلسہ اپنے اپنے گھر چلے جاتے تھے اور وہ جس کے ساتھ چاہتا تھا خلوت کرتا تھا اور صبح کو شطرنج اور نرد کھیلنے والوں کا کھاڑہ جمتا کوئی اس کے سامنے بیماری یا موت یا کسی ایسی شے کا جس سے غم پیدا ہو ذکر نہ کرنے پاتا، حکایات اور عجیب و غریب باتیں جن سے ہنسی دل لگی ہو اس کے سامنے ہوتیں اور ہر روز نئی نئی پوشاکیں اور قسم قسم کی خوشبوئیں استعمال کرتا اسی حال میں اسے ستائیس برس گزر گئے۔ ایک رات کا قصہ ہے کہ وہ اپنے معمول کے موافق لہو لعب میں مشغول تھا اور کچھ حصہ رات کا گزرا تھا کہ ایک نہایت دردناک آواز اپنے مطربوں کی آواز جیسی سنی اور اس کے سننے سے اس کے دل پر ایک چوٹ سی پڑی اور اپنے اس لہو لعب کو چھوڑ کر اس کی طرف مشغول ہو گیا اور مطربوں کو حکم دیا کہ گانا بند کرو اور قبہ کی کھڑی کی سے وہ آواز سننے کے لئے منہ نکالا۔ کبھی تو وہ آواز کان میں آ جاتی اور کبھی نہ آتی اپنے غلاموں کو آواز دی کہ اس آواز دینے والے کو یہاں لے آؤ اور خود شراب کے نشے میں چور تھا۔ غلام اس کی تلاش کے لئے نکلے رفتہ رفتہ اس تک پہنچے دیکھا

کہ ایک جوان ہے نہایت لاغر ہے اس کی گردن بلکل سوکھ گئی ہے اور رنگ زرد اور لب خشک، پریشان بال، پیٹ اور پیٹھ دونوں ایک اور دو پھٹی پرانی چادریں اوڑھے ہوئے ننگے پاؤں مسجد میں کھڑا اپنے پاک پروردگار کے سامنے مناجات کر رہا ہے انہوں نے اسے مسجد سے نکالا اور لے گئے اور کچھ بات چیت اس سے نہ کی اسے لے جا کر سامنے کھڑا کر دیا اس نے دیکھ کر پوچھا یہ کون ہے؟ سب نے عرض کیا حضور یہ وہی آواز والا ہے جس کی آواز آپ نے سنی، پوچھا یہ کہاں تھا کہا کہ مسجد میں کھڑا ہوا نماز میں قرآن پڑھتا تھا، اس سے پوچھا تم کیا پڑھ رہے تھے کہا میں کلام اللہ پڑھ رہا تھا کہا ذرا ہم کو بھی سناؤ اس نے اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر بیشک نیک بندے آرام میں ہوں گے تختوں پر بیٹھے (سیر) دیکھ رہے ہوں گے، تو پہچانے گا ان کے چہروں پر تازگی نعمت کی۔ ان کو پلائی جائے گی خالص شراب سر بمہر، اس کی مہر (بجائے موم کے) مشک کی ہو گی، اور اس شراب میں رغبت کرنے والوں کو چاہئیے کہ رغبت کریں اور اس میں تسنیم ملی ہوئی ہو گی، وہ ایک چشمہ ہے جس سے مقرب بندے پئیں گے۔یہ آیت پڑھ کر اس سے کہا ارے دھوکہ میں پڑے ہوئے وہاں کی نعمتوں کا کیا بیان ہے وہ کہاں اور تیرا یہ قبہ اور مجلس کہاں، چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ وہاں تخت ہیں ان پر بچھونے اونچے اونچے ہوں گے، اور ن کے استر استبرق کے ہوں گے، اور سبز قالینوں اور قیمتی بچھونوں پر تکہہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے، اور وہاں دو نہریں بہتی ہیں، اس میں ہر میوہ کی دو قسم ہیں، نہ وہاں کے میوے کبھی ختم ہوں گے نہ ان سے کوئی جنتی کو روکنے والا ہو گا، بہشت بریں کے پسندیدہ عیش میں ہونگے اور وہاں کوئی بے ہودہ کلام نہ سنیں گے، اور ان میں اونچے اونچے تخت ہیں، اور آبخورے رکھے ہوئے ہیں،

اور تکیے ایک قطار میں رکھے ہوئے ہیں، اور مخملی نہالچے بکھرے پڑے ہوں گے، ہمشہ سایہ اور چشمہ میں رہیں گے اور جنت کے پھل دائمی ہیں اور یہ سب تو متقیوں کے لئے ہیں۔اب کافروں کی سنئیے! ان کے لئے آگ ہے اور آگ بھی ایسی کہ جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور عذاب کبھی ہلکا نہ کیا جائے گا، اسی میں نا امید پرے رہیں گے، اور جب انہیں منہ کے بل گھسیٹیں گے تو ان سے کہا جائے گا یہ عذاب چکھو عرض کہ ان پر طرح طرح کا عذاب ہو گا۔ جب اس ہاشمی نے یہ سنا تو بے اختیار اٹھا اور اس جوان سے لپٹ کر چلا چلا کر رونے لگا اور اپنے سب لوگوں کو کہا کہ میرے پاس سے چلے جاؤ اور خود اس جوان کو لے کر گھر کے صحن میں آ کر ایک بورئے پر بیٹھ گیا اور اپنی جوانی کے رائگاں جانے پر افسوس اور حسرت اور نفس کو ملامت کرتا رہا اور وہ جوان نصیحت کرتا رہا۔ صبح تک دونوں اسی میں مشغول رہے۔ ہاشمی نے اللہ تعالٰی سے عہد کیا کہ کبھی حق تعالٰی کی نافرمانی نہیں کروں گا اور اپنی توبہ کو اس نے سب کے سامنے ظاہر کر دیا اور مسجد میں بیٹھ رہا۔ ہر وقت عبادت الٰہی میں رہنے لگا، اور تمام سونا چاندی اور کپڑے بیچ کر صدقہ کر ڈالے، تمام نوکر چاکر الگ کر دئیے، اور غصب کی تمام جائدادیں ان کے مالکوں کو واپس کر دیں،کل جائداد غلام لوندیاں بیچ ڈالیں اور جس کو آزاد کرنا چاہا آزاد کر دیا اور موٹے کپڑے پہن لئے اور جو کی روٹی کھانے لگا، پھر تو یہ حالت ہو گئی

کہ ساری ساری رات بیداری میں گزارتا دن کو روزہ رکھتا اور بڑے بڑے صلحاء اس کی زیارت کو آتے اور اس سے کہتے بھائی اپنے نفس کو اتنی سختی میں نہ رکھ کچھ آرام بھی دے اللہ تعالٰی رحیم و کریم تھوڑے سے کام کی بھی قدردانی فرماتا ہے،وہ جواب دیتا بھائیو! میں نے بڑے بڑے گناہ کئیے رات دن اللہ کی نافرمانی میں رہا اور یہ کہہ کر خوب روتا۔آکر کار پا پیادہ وہ ننگے پاؤں اور بدن پر ایک بہت موٹا کپڑا پہنے ہوئے حج کے لئے گیا اور سوائے ایک پیالہ اور توشہ دان کے کوئی چیز ساتھ نہ لی اسی حالت میں چلتے چلتے مکہ کو پہنچا اور حج کیا اور وہیں اقامت کی اور مر گیا، مکہ میں رہنے کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ رات کو حجر اسود کے پاس جا کر خوب روتا اور گڑ گڑاتا اور اپنے نفس پر گزشتہ افعال یاد کر کے نوحہ و زاری کرتا اور کہتا کہ اے میرے پروردگار اے میرے مولا! میری سینکڑوں خلوتیں غفلت میں گزر گئیں اور کتنے ہی برس گناہوں میں ضائع ہو گئے اے میرے مولا میری نیکیاں تو سب جاتی رہیں اور حسرت و ندامت باقی رہ گئی۔ اب جس دن آپ سے ملوں گا اور میرے نامہ اعمال کھولے جائیں گے اور دفتر کے دفتر گناہوں اور رسوائیوں کے ظاہر ہوں گے اس روز کیا ہو گا اور کس طرح منہ دکھاؤں گا۔ اے میرے مولا! اب میں تیرے سوا کس سے التجا کروں اور کس کی طرف دوڑوں کس پر بھروسہ کروں۔ میرے مولا! میں اس لائق تو نہیں کہ جنت کا سوال کروں میں تو آپ کے دریائے رحمت نا پیدا کنار اور آپ کے ابر فضل و عطا سے یہ سوال کرتا ہوں کہ میری خطاؤں کو بخش دیجیئے آپ ہی مغفرت والے ہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *