وہ ہمارے گھر کام کرنے آتی تھی میں نے اسے ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا

نازو ہمارے چچا کے گھر کام کرتی تھی وہ ایک سیدھی سادھی لڑکی تھی ۔ اس کا باپ چچا کی دکان پر ملازم تھا چچا اس گھرانے کا بہت خیال رکھتے تھے ایک روز نازو کے باپ کے سینے میں درد ہوا اور وہ دکان پر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے اس حادثے نے ہم سب کو افسردہ کردیا نازو کی عمر اس وقت تیرا برس تھی اب اس کا ایک بیوہ ماں کے سوا کوئی نہ رہا گھر بھی کرائے کا تھا لہذا چچا نے ان دونوں ماں بیٹی کو اپنے گھر کے سامنے والے مکان میں شفٹ کردیا ہے ۔ یہ مکان بھی چچا ہی کا تھا لیکن ادھورا بنا ہوا تھا۔

نزدیکی رہائش مل جانے کے بعد نازو کی ماں بیٹی کے ساتھ ہمارے گھروں میں کام کرنے آنے لگی نازو کی ماں کو ہم چاچی نوراں کہتے تھے۔وہ نیک عورت تھی فرمانبردار ایسی جو کام بتاتا کبھی انکار نہ کرتی اسی لیے سب کی پسندیدہ ہوتی گئی ۔ نازو ایک خوبصورت نازک اندام لڑکی تھی اسے پڑھنے کا شوق تھا اپنے والد کی وفات کے بعد جب وہ چھٹی جماعت میں تھی اس کی پڑھائی کا سلسلہ ختم ہوگیا نازو کو اس بات کا سخت ملال تھا وہ اکثر مجھ سے کہا کرتی کاش مجھے پھر سے سکول میں داخل کرادے تو عمر بھر یہ احسان نہ بھولوں گی ۔ ایک دن چچی سے سفارش کی انہوں نے چچا سے کہہ کر نازو کو سکول میں داخل کروادیا تو میرے چچا کی بیٹی نازش کیساتھ جاتی اور چھٹی کے بعد کام کرنے آ پہنچتی چچی اس کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتی ۔وہ تعلیم کا تمام خرچہ برداشت کرتی اس کے علاوہ ماں کی بھی مالی مدد کردیا کرتی تھی

اسی باعث نوراں ہمارے خاندان کی احسان مند تھی ۔ کیونکہ کبھی ہم نے احساس نہیں دلا یا کہ وہ غریب اور بے سہارا ہے بلکہ چچا چچی نے ان کو اپنے گھر کا فرد جیسا جانا۔ میرے چچا نوراں کو آپا کہتے او ربہن کا درجہ دیتے تھے ۔ عید کے موقع پر جو وہ اپنی بہنوں کیلئے لاتے وہی چاچی نوراں کیلئے بھی لاتے تھے ۔ نازو کو اپنی بیٹیوں کی مانند رکھا ہوا تھا ۔ وہ میری چچی کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھی ۔ ان کی اپنی لڑکیاں گھریلو کام کاج کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی ۔شروع میں میرے چچا ذات منیب نے نازو کی طرف دھیان نہ دیا وہ اپنی پڑھائی میں مگن رہتا ۔ لیکن جب نازو نے میٹرک کے بعد خوب رنگ روپ نکھار لیا تو منیب کی نظریں اس پر پڑنے لگیں ۔ ہماری چچی نے ان پر کوئی نوٹس نہ لیا جیسے یہ دھیان دینے والی بات نہ ہو ۔ منیب چاہتا تھا کہ نازو کو بھی کالج میں داخل کرایا جائے ۔ جبکہ اس کی بہنیں کالج جاسکتی تھی وہ کیوں نہیں جاسکتی ۔ تاہم چچی کو یہ بات منظور نہ تھی وہ کہتی تھی یتیم لڑکی ہے ہم نے میٹرک تک پڑھا دیا بس اتنا بہت ہے اگر یہ کالج جائے گی تو کام کاج میں میرا ہاتھ کون بٹائے گا

اگر منیب اس کو پڑھا دیا کرے تو یہ پرائیویٹ طلباء کے طور پر ایف اے کا امتحان دے سکتی ہے ۔ منیب یہ دل سے چاہتا تھا ماں کی اجازت ملتے ہی و ہ دن میں ایک گھنٹہ نازو کو پڑھانے لگا۔ نازو کی بھی خوابوں والی عمر تھی قربت ملنے پر دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے کسی پرظاہر نہ کیا اور گھر میں کسی کو شک نہ گزرا کہ یہ نوجوان دل ایک دوسرے کیلئے دھڑکنے لگے ہیں۔ ایک روز نازش نے چھپ کر ان کی باتیں سن لیں ماں کو آگا ہ کردیا چچی نے نازو سے کچھ نہ کہا لیکن اپنے بیٹے کی خوب سرزنش کی کہ اب تم نازو کو نہیں پڑھاؤ گے پڑھائی کے بہانے ایک یتیم لڑکی کو سیدھے راستے سے بھٹکا رہے ہو اور ایک بیوہ عورت کی عزت کو مٹی میں ملانا چاہتے ہو کسی کو اپنے گھر پناہ دیکر اس کیساتھ محبت کا کھیل رچانا شریفوں کو زیب نہیں دیتا اگر تم نے آئندہ اس لڑکی کے بارے میں غلط سوچا یہ لوگ تو گھر بدر ہونگے ہی تمہیں تمہارے ابو معاف نہیں کرینگے ۔اس دھمکی سے منیب ڈر گیا اور اس نے نازو کو پڑھانا تو دور اس سے بات چیت ترک کردی یہ سب ماں کو مطمئن کرنے کیلئے تھا دل سے وہ ابھی اسے چاہتا تھا

وہ نازو سے سچی محبت کرنے لگا تھا اس کا ارادہ دل لگی کا نہیں بلکہ اس کے ساتھ شادی کرنے کا تھا ۔ منیب نے سوچا پہلے تعلیم مکمل کرلوں پھر والدین سے اپنی آرزو کا اظہار کروں گا کہ میں نازو کو شریک حیات کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں دو سال خاموشی سے گزر گئے ۔ نازو نے بھی بہت احتیاط اور تحمل سے کام لیا اس وقت کا انتظار کرتی رہی جب تک منیب تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے البتہ یہ دونوں گھروالوں سے چھپ کر بات کرلیتے تھے جب چچی گھر میں نہ ہوتی ان کا راز صرف میں جانتی تھی ۔ نازو مجھے اپنا دوست اور غم گزار سمجھتی تھی مجھ پر اعتبار بھی کرتی تھی ۔ منیب کے بڑے بھائی نجیب کی شادی ہوگئی اور میں چچا جان کی بہوبن کران کے گھر آگئی اب چچی اکیلی نہ رہی شادی کے بعد گھر کی ذمہ داری انہوں نے میرے سپرد کردی میں نے گھر سنبھال لیا تب انہوں نے نازو کی چھٹی کردی مالی امداد اب بھی وہ اس کی ماں کو دیتی تھی

لیکن اپنے گھریلو کاموں سے نازو کو ہٹا دیا کہ بچی جوان ہوگئی اس کا اپنے گھر میں رہنا ہی بہتر ہے ۔ مجھے بھی کہا کہ اب بیٹی یہ گھر بار تمہارا ہے چاہو تو دوسری ملازمہ رکھ لو لیکن نازو کو واپس اپنی ماں کے پاس بھیج دو۔ کیونکہ نورا ں بیمار رہتی ہے اور دیکھ بھال کیلئے اپنی بیٹی کی ضرورت ہے ۔تعلیم مکمل ہوگئی تو منیب کی شادی کی باتیں ہونے لگیں چچی چاہتی تھی کہ وہ اس کی شادی وہ اپنی بھانجی فائز ہ سے کرے اس بات کی بھنک میرے دیور کے کانوں میں پڑی تو اس نے شور مچا دیا ماں سے کہا کہ میں ہرگز فائز ہ سے شادی نہیں کروں گا بہتر ہے اس کی والدہ سے رشتہ کی بات کریں جب چچی نے انکار کیا تو اس نے خو د ک شی کی دھمکی دی ۔ چچا بھی بیٹے کی اس فرمائش پر پریشان تھے ۔ لاکھ وہ ان ماں بیٹی کی عزت کرتے تھے لیکن نازو کو بہو بنانا اپنی توہین سمجھتے تھے ۔

جب دیکھا بیٹے نے بغاوت کردی ہے نوراں سے نازو کا رشتہ مانگنے کے بجائے ان کے پاس کچھ ایسی بات سمجھا دی کہ وہ بیچارے سر جھکا کر رہ گئے ۔ ان دنوں منیب بہت جوشیلا نوجوان تھا ۔ ایک دن منیب کو پاس بیٹھایا میری بات غور سے سنو مجھے تمہاری خوشی عزیز ہے ایک بات مان لو جب تک تم انجینئربن کر نہ دیکھا ؤ گے نازو کی ماں اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دوں گی ۔ نازو کا رشتہ لینا ہے تو پڑھنا ہوگا۔وہ پڑھائی کیلئے باہر چلا گیا اور محنت کرنے لگا۔ جب اسے خط ملا کہ اچانک حادثے میں نازو کا انت قال ہوگیا یہ صدمہ منیب کیلئے بہت سخت تھا وہ کیا کرسکتا تھا ایسا قدرت کی طرف تھا۔ تعلیم کا آخری سال تھا چچا خود اسلام آباد چلے گئے اسے تسلی دی یہاں رہ کر تعلیم مکمل کرو اور پرچے دیکر گھر آنا کچھ تو میرے خاوند اور کچھ چچا اور منیب کے دوستوں نے سہارا دیا ۔ہمت بڑی مشکل سے تعلیم کا آخر ی سیشن مکمل کرپایا اور اس کا شہرمیں دل نہ لگا اور وہ بیرون ملک چلا گیا ۔یہاں بھی نازو کا دکھ گن کا طرح کھاتا تھا ۔

منیب نے تعلیم میں محنت کی کینیڈا میں اچھی نوکری حاصل کی وہیں کا ہوکر رہ گیا کچھ عرصے کی تنہائی کے بعد وہیں ایک لڑکی ملی دل کے گھاؤ پر مرہم رکھتے ہوئے اس لڑکی سے شادی کرلی کافی عرصہ گزر گیا ایک دن خیال وطن جانا چاہیے ۔ وہ گھر آگیا اسے دیکھ کر سب خوش ہوگئے ۔ واپس جانے کے دن قریب آئے ایک شاپنگ کے غرض سے صدر جانا پڑا ایک دن اسے نازو دکھائی دی وہ ششتر رہ گیا منیب کو آنکھوں پر یقین نہ آیا جیسے کو ئی بیتا لمحا خواب بن کر آگیا ہو وہ سوکھ کر کانٹا ہوچکی تھی پہلی نظر میں پہچان نہیں سکتا تھا ۔ اس نے پہچان لیا یہ کیسے نازو ہوسکتی ہے وہ مرچکی تھی اس نے آگے بڑھ کر سوال کیا کیا تم نازو ہو تم تو مرچکی تھی میرے والدین اور تمہاری ماں نے یہی بتا یا تھا ۔ انہوں نے جھوٹ کہا تھا کہ مجھے اور تمہیں جدا کرنے کیلئے تمہارے والدین نہیں چاہتے تھے

کہ وہ مجھے بہو بنائیں والدہ ان کے احسانوں کے بوجھ تلے جھکی ہوئی تھی ۔انہوں نے ہاتھ جوڑ کر ماں سے منت سماجت کی تھی وہ ایسا ہی کہے گی ۔ تمہیں پڑھنے کیلئے اس لیے بھیج دیا گیا تھا اور مجھے والدہ اپنے ساتھ لیکر لاہور آگئی جہاں تمہارے والد اپنے دور کے ایک غریب رشتہ دار سے میری شادی کروادی میں وہاں جیتے جی مر گئی اور تمہیں کہا گیا کہ میں مرچکی ہوں ہاں میں مرچکی ہوں میں کب زندہ رہی ہوں میں تمہیں زندہ لگ رہی ہوں ۔نازو کی بات سن کر منیب کو بہت دکھ ہوا گھر آکر کسی سے کلام نہیں کیا اور واپس کینیڈا لوٹ گیا کیونکہ اس کے اپنوں جن وہ اعتبار کرتا تھا اس کے اعتبار کا شیشہ چکنا چور کردیا تھا ۔ جس دن بازار میں نازو ملی تھی وہ واقعے زندہ نہیں مردہ نظر آرہی تھی اس سے ملنے کے بعد منیب کے دل میں اپنوں کی محبت نے دم توڑ دیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *