پکی کھجوریں

کسی عالم سے دریافت کیا گیا۔”اگر کوئی پارسا شخص انتہائی حسین ہو اور کسی بند کمرے میں کسی حسینہ کے ساتھ محو گفتگو ہو۔ ایسے میں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔ نفس بھی طلبگار قربت ہو، اور شہوت بھی غالب۔ مقولہ عرب کے مطابق کھجوریں پکی ہیں اور باغبان روکنے والا نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی حالت

میں پرہیز گاری کی وجہ سے بچا رہے۔”عالم نے جواب دیا۔” اگر اپنے آپ کو خرمستیوں سے بچا بھی لےتوبرائی کرنے والوں کی بدخوئی اور ملامت سے نہ بچ سکے گا۔ “حاصل کلام؛انسان اپنے نفس کیبرائی سے بچ سکتا ہے مخالف کی بدگمانی سے نہیں۔لیڈرز کی دس بڑی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی اس کی

کریڈیبلٹی ہوتی ہے۔ لوگ اسکے ایک لفظ پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ اس پر ایمان کی حد تک اعتماد بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے‘ اٹھو‘ تو لوگ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ وہ کہتا ہے چل پڑو تو لوگ اسی وقت گھر بار‘ کاروبار اور زمین جائیداد چھوڑ کر چل پڑتے ہیں اور وہ کہتا ہے بیٹھ جاﺅ تو لوگ سانس روک کر

زمین پر جم کر بیٹھ جاتے ہیں۔ عوام کے دل میں لیڈر کا یقین اور اس کریڈیبلٹی کتنی بڑی چیز ہوتی ہے اس کا فیصلہ آپ قائداعظم محمد علی جناح کے اس واقعے سے لگا لیجئے۔پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم گورنر جنرل تھے۔ انڈیا سے روزانہ ہزاروں کٹے پھٹے لوگ پاکستان پہنچتے تھے‘ ٹرینوں کی ٹرینیں نعشوں اور

زخمیوں سے بھری ہوتی تھیں‘ لوگ ریڑھوں پر‘ گڈوں پر اور پیدل بھی پاکستان پہنچ رہے تھے‘ یہ لوگ کیمپوں میں پڑے تھے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا‘ ان متاثرین میں ایک بڑی تعداد سرکاری ملازمین کی بھی تھی‘ پاکستان میں کام کرنے والے زیادہ تر سرکاری ملازم ہندوستانی علاقے سے پاکستان آئے تھے

اور ان کے لواحقین اور رشتے دار ابھی تک انڈیا میں پھنسے ہوئے تھے‘ یہ لوگ ان کیلئے خاصے پریشان تھے۔ حکومت پاکستان نے سرکاری ملازمین کے رشتے داروں کی محفوظ آمد کیلئے انڈین گورن منٹ کو خط بھی لکھا تھا لیکن اس خط کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا چنانچہ یہ لوگ شدید فرسٹریشن کا شکار ہو گئے۔ ایک رات

کویت کے امیر پاکستان کے دورے پر تھے‘ یہ خلیجی ریاست کا کسی حکمران کا پہلا دورہ تھا۔ قائداعظم نے امیرے کویت کے اعزاز میں گورنر جنرل ہاﺅس میں ڈنر کا اہتمامکیا تھا۔ یہ ڈنر چل رہا تھا کہ اچانک وفاقی حکومت کے سینکڑوں ملازمین جلوس کی شکل میں گورنر جنرل ہاﺅس پہنچے‘یہ لوگ لان میں اکٹھے ہوئے

اور انہوں نے اپنے عزیزوں کیلئے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ گورنر جنرل ہاﺅس کے عملے‘ قائداعظم کے سیکرٹری اور اے ڈی سی نے امیرے کویت کی موجودگی کا جواز پیش کر کے ہجوم کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ملازمین نے نعرے بازی بند نہیں کی لہٰذا مجبوراً قائداعظم کو جلوس کی اطلاع دے دی گئی۔قائداعظم

ڈائننگ ہال سے باہر آئے‘ گورنر جنرل ہاﺅس کی بالکونی میں پہنچے‘ ہجوم کی طرف دیکھا‘ اپنے کمزور اور بوڑھے ہاتھ سے لوگوں کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا‘ مجمع ایک لمحے میں خاموش ہو گیا‘ اس کے بعد قائداعظم نے صرف سات لفظوں کا ایک فقرہ بولا ۔ آپ نے کہا ”حکومت اپنے فرائض سے غافل نہیں ہے“ اس

کے ساتھ ہی قائداعظم نے تمام لوگوں کو اس طرح باہر نکل جانے کا اشارہ کیا‘ واپس مڑے اور اندر چلے گئے اور سارا مجمع دو منٹوں چپ چاپ خاموشی سے گورنر جنرل ہاﺅس سے باہر نکل گیا۔اس کو کہتے ہیں لیڈر شپ کہ آپ بپھرے ہوئے‘ غصے سے پاگل مجمعے کے سامنے کھڑے ہو کر سات لفظ بولیں‘ لوگ سر جھکائیں

اور چپ چاپ گھروں کو لوٹ جائیں لیکن یہ صلاحیت‘ یہ طاقت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان صاحب کردار نہیں ہوتا‘ جب تک اس کے اندر روشنی اور قوت نہیں ہوتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *