بیوی کا انجام: ایک دلخراش کہانی
وہ ایک عجیب سی رات تھی مجھے سمجھ نہیں آرہاتھا میں کیا کروں کیانہ کروں شادی کی پہلی رات تھی اور دلہن بنی بیٹھی میری بیوی نےکہا خبردار مجھے ہاتھ مت لگانا میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں۔ یہ زبردستی کی شادی ہوئی ہے اور یادرکھو تم کچھ بھی کر لو میری محبت نہ حاصل کر پاؤ گے ۔ نہ میں تمہیں چاہونگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں حیران وپریشان پاگ۔لوں کی طرح اسے دیکھنے لگااور سوچنےلگا کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ جب کچھ سمجھ نہ آیاتو اٹھا اوروضو کیا اور نماز کےلیے چلاگیا۔ اور اپنے اللہ سے ذکر کیا کہ یار ب یہ کیسا امتحان ہے؟ معاشرے کا ڈر خاندان والوں کا ڈر۔ میں ایک مڈل کلاس فیملی سےتعلق رکھتا ہوں اور ایسی اونچ نیچ پر ہمارے ہاں عزت کا جلوس نکل جاتا۔ مختلف سوچیں آجارہی تھیں کہ اگر یہ صبح گھر گئی اور واپس نہ آئی تو میری عزت کا کیا ہوگا۔ کیاپتہ یہ اپنے گھر میں یہ ہی نہ کہہ دے کہ یہ نامرد ہے اس سے شادی ختم کروادوں۔ میں نے اس سے بات کرنا چاہی۔مگر دل نہیں مانا میرا کہ میں اس کی منت کروں۔میں سو گیا۔اگر اسے کسئ اور سے محبت تھی تو نکاح کے لئے ہاں ہی نہ کرتئ یا مجھے ہی بتا دیتی میں اس سے رشتہ ختم کر دیتا۔میری زندگی خراب تو نہ ہوتی ۔۔میں شادی پر ساری جمع پونجی لگا چکا تھا
صبح وہ اپنے گھر چلی گی کوئی بات نہیں ہوئی۔3 دن تک کوئی ہلچل نہیں ہوئی ۔3 دن بعد اس کی امی کی کال ائی تو میں لینے چلا گیا ۔میں نے وہاں بھی کوئی بات نہیں کی ۔وہ رات کو فون پر کسی سے باتیں کرتئ تھی ۔میں نے پوچھا تک نہیں میں نے اس سارے وقت میں بس اک بار پوچھا تھا کہ طلاق چاہیے اس نے کہا نہیں۔ اس کا فون پر جو عشق تھا اس کا مجھے کوئی مطلب نہیں تھا ۔7 ماہ ایسے ہی گزر گے ۔اک دن اس نے پوچھا اک بات پوچھوں میں نے کہا پوچھ لو۔اس نے کہا کیا اپ کو مجھے دیکھ کر طلب نہیں ہوتی۔میں نے کہا۔25 سال ک۔نڑول رکھا ۔تو تجھے کیا لگتا ۔اب نہیں رکھ سکتا ۔ مگر آج بات کچھ اور تھی ۔میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ تمہاری بیوی کسی اور مرد کے ساتھ کسی ہوٹل میں بیٹھی تھی۔مجھے آج اس پر غص۔ہ آ رہا تھا ۔میں نے اس کی عزت رکھئ اس نے میری عزت نہ رکھی۔
میں گھر کی طرف چل دیا۔اس کو آواز دی ۔اور اک ایسا زور دار تھ۔پڑ م۔ارا کہ میری انگلیاں اس کے منہ پر چھ۔پ گئ۔اس کو کہا اب تم اپنے گھر جاو۔اور اج سے میرئ طرف سے آزاد ہو۔طلاق چاہیے ہو تو کہہ دینا ۔مگر میرے ساتھ میرے گھر میں نہیں رہ سکتی ۔ وہ عورت آج بھی اپنے گھر ہے ۔طلاق نہیں مانگی اس نے ۔ جس کے عشق میں وہ پاگ۔ل تھی اس نے اس کو اپنایا ہی نہیں اور بھ۔اگ گیا ۔اک دن روتئ ہوئے اسکی کال آئی تھی کہ مجھے اپنے نام سے محروم نہ کرنا بس بھلے ہی مجھے اپنے پاس جگہ نہ دو لیکن طلاق مت دینا۔ بساک آخری خواہش پوری کر دو۔ میں نے اسکی خواہیش کا احترام کیا طلاق نہیں دی۔اس کے بعد مجھے تین سے چار سال لگے خود کو نارمل انسان بنانے میں عورت پر یقین کرنے میں کہ ہر عورت اک جیسی نہیں ہوتی۔
پھر آخر میں نے دوسری عورت سے شادی کر لی۔اب میرے 3 بچے ہیں میری یہ والی بیوی بہت ہی نیک نکلی۔پتا نہیں وہ دو تین سال جو میں نے حوصلے سے گزارے اس کی وجہ سے۔ اللہ نے انعام کی صورت میں دیا کہ میں اب تھوڑی سی بھی ہمدردی کو بہت بڑی بات سمجھنے لگا تھا ۔میں زرا سا بھی پریشان ہو جاوں تو میری بیوی کی نیندیں اڑ جاتی ہیں اس کو مجھے سے عشق ہے اور بے انتہا عشق۔ اک وہ پہلی عورت اک یہ عورت میں تو وہی تھا وہی ہوں۔ میری پہلے والی بیوی اب پاگ۔ل ہو چکی ہے ۔میرے نام لکھ لکھ کر چومت۔ی رہتی ہے۔ اور گلیوں میں پھرتی رہتی ہے۔ اسے اپنی ہوش ہی نہیں رہی اب۔لوگ اب بھی کہتے ہیں میں ظ۔الم ہو اس پر ظ۔لم اتنے کیے کہ وہ پاگ۔ل ہو گی۔اب میں کیا کہوں لوگوں سے۔حرام محبت کا مقدر ذل۔ت ہی ہوتی ہے۔ھ۔وش کرو۔ حرام محبت کا مقدر ذل۔ت ہے بس ذل۔ت۔
Leave a Reply