ایک شام میں نہا کر نکلی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی شا ہان سیدھا میری اماں کے کمرے میں گھس گیا

وہ ایک گرم دوپہر تھی اسکول سے واپس آکر وہ ابھی فارغ ہی ہوئی تھی کہ بھا بھی نے آواز لگا دی کہ زرا گھر کی صفائی دیکھو کچھ مہمان آ ئیں گے شام تک جیسے تیسے بڑ بڑاتے ہوئے اس نے جھاڑو اٹھائی اور ایک نظر صحن پر ڈالی اف اللہ آج ہی آنا تھا کسی کو کیا پہلے سے نہیں بتا سکتے تھے یہ آنے والے ہیں رخسار گھر میں دوسرے نمبر پر تھی اور بڑی بہن تہمینہ کے لیے رشتے دیکھے جا رہے تھے تہمینہ ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی تھی

جبکہ رخسار خوبصورت و خوش شکل پر کشش لڑکی تھی یہ لوگ چار بہن بھائی تھے بھائی دونوں بڑے تھے اس لیے اماں نے پہلے ہی ایک بھائی کی شادی کر دی تھی اور دوسرے کی تہمینہ کے بعد کرنے کا ارادہ تھا مگر کوئی رشتہ روکتا ہی نہیں تھا۔

اس بے چاری کی کم شکل و صورت کی وجہ سے اب تو وہ چڑ چڑی ہوتی جا رہی تھی جب کوئی رشتہ آتا ماں بے چاری بولنے لگتی اور رخسار ہی کی شامت آتی کام بھی اسے ہی کر نا پڑتا اور بار بار اماں سے تلقین کرتی کے سامنے نہیں آنا۔ آج بھی وہ غصے میں سرخ ہو رہی تھیں مگر بہن کی محبت بھی تھی وہ دعا کر رہی تھی کہ اللہ کرے یہ لوگ بس میری بہن کو پسند کر لیں اللہ اللہ کر کے شام کو مہمان آ ئے اور سارے گھر سے چھپ کر چت پر بنے کمرے میں جا چھپی اور سو گئی مغرب کے وقت اماں کی آواز سے آنکھ کھلی اور اماں کا مخموم چہرہ سب بتا گیا۔

اسی طرح بہت سارے دن بیت گئے اور وق پر لگا کہ اڑا آج اس کے فرسٹ ائیر کا پہلا پیپر تھا اور بھا بھی کی طبیعت بھی خراب تھی بھا ئی بھا بھی کو چھٹی کر کے ڈاکٹر کے پاس لے جار ہے تھے اسے بھی سینٹر لیتے گئے اور واپس پر لینے کا کہتے گئے پیپر بہت اچھا ہوا با ہر نکلے تو بھائی انتظار کر رہے تھے وہ جھٹ گاڑی میں جا بیٹھیں بہت تھکن ہو رہی تھی اس کی کالی سیاہ آنکھیں نیند سے بو جھل ہو رہی تھی بھائی جان کر دیکھ کر مسکرانے لگے وہ بھی فوراً آنکھیں دکھا کر بولی بس آئسکریم بھائی جان۔۔۔۔ اور دونوں نے ہکا سا قہقہہ لگا یا بھائی نے گاڑی موڑی اور تھوڑا آ گے آئس کریم پا لر پر رک کر آئس کریم لینے چلے گئے پھر جلدی ہی لوٹ آئے مگر ان کے ساتھ کوئی اور بھی تھا جو بہت بے۔

تکلفی سے گاڑی میں آ بیٹھا وہ جھجک گئی مگر بھائی جان اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اس کی طرف آئس کریم بڑھا کر بولے ارے رخسار یہ شا ہان ہے تم کو تو یاد بھی نہیں ہو گا پہلے ہم پڑوسی تھے جب تم چھوٹی تھی اور شا ہان بھی چھوٹا ہی تھا آج اس نے مجھے پہچان لیا اور روک لیا پھر وہ لوگ کافی پرانی باتیں کرتے رہے اور شاہان اسے کبھی کبھی پلٹ کر دیکھ لیتا ایک نظر اور وہ ایک دم سے سمٹ جاتی اسے غصہ بھی آ رہا تھا تھکن سے برا حال تھا اور بھائی جان دیر لگا رہے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *