یہ میری بیٹی نہیں !!

میں رات کو مٹر گشت کا عادی ہوں ۔ سڑک چھاپ کہہ لیں۔ یہ عادت کراچی سے ہے۔ دفتر سے گئے گھر آنا پھر سنسان اور اندھیری راتوں میں چہل قدمی کرتے کرتے پیالہ ہوٹل پہنچنانا، اسی طرح ریاض میں رہتے ہوئے گذشتہ ڈیڑ ھ سال تک یہی معمول رہا جس کے بعد میں جدہ منتقل ہوگیا۔ اپنے اسی معمول کے باعث مجھے رات کی تاریکی میں مجھے دیار غیر کی سڑکوں پر سناٹا اپنادوست بناتے بہت سے اپنے ملے۔

جو پل پل اپنوں کےلیے جیتے ہیں۔ پھر را ت کا ہر پل اپنوں کےلیے آنسو بہا کر گزار دیتے ہیں۔ ریاض میں رہتے ہوئے کافی عرصہ ایسا گزرا جب ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا تھا۔ ظاہر ہے پکا نا آتا نہیں۔ اس لیے ہوٹل پر ہی اتفاق کرناپڑتا۔ مگر کھانے کی میز پر تنہاء بیٹھتے ہوئے ایک نوالہ بھی حلق سے اترنا، گویا زہر کھانے کے برابر لگتا۔

چنانچہ اپنی میز سے اٹھ کر کسی اور پر تنہاء بیٹھے شخص کے پا س پہنچ جاتا ۔ اپنے آرڈر کے ساتھ کہتا کہ یار ہم دونوں مل کر کھاتے ہیں۔ باتیں بھی ہوں گی۔ اور وقت اچھا گزرجائے گا۔ اور پیٹ بھی بھر جائے گا۔ میرے اس جملے کا جواب عموماً اچھاہی ملتا تھا۔ ایک دن ایک ایسے صاحب سے واسطہ پڑا جو شاید کسی بات پر ناراض تھے ۔ میں میز پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ چلے انکل ایک ساتھ کھاتے ہیں۔باتیں بھی کریں اور پیٹ بھی بھر یں گے۔ وہ صاحب بولے ،کیوںمیاں ، چلو چلواپنا کھانا منگواؤ اور کھاؤ ۔ آجاتے ہیں مفت خورے کہیں سے۔ ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ پورا ہوٹل سمجھا کہ واقعی ان سے مفت کھاناکھانے کی درخواست کر رہا ہوں۔ میں نے وضاحت کی کہ چاچا کہ کھانا میں اپنے پیسوں سے منگواؤ ں گا۔ بس آپ کے ساتھ بیٹھوں گا۔ وہ نہیں مانا۔ میں اکثر کی طرح اسی دن کھاناکھائے بغیر میز سے اٹھ گیا ۔ رات کو بسکٹ کھائے ۔ اور سو گیا۔ دیار غیر میں بھوکے سونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اکثر ہی ایسا ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک رات کھانا کھانے کو نکلا۔ انھی جملوں سے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ میں یہاں پر اس کو آفتا ب کے نام سے متعارف کرواؤں گا۔ آفتا ب کی عمر کوئی چھبیس ستائیس سال ہوگی۔ ایک دوسرے کے بارے میں باتیں شروع ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ آفتا ب کی شادی چار سال پہلے ہوئی تھی۔

شادی کے ایک سال بعد ریاض آگیا۔ اور گھریلو مسائل کی وجہ سے واپس نہ جا سکا۔ ہم روز ملاقات کرتے رہے۔ ایک رات مجھے ایک سڑک پر ملا۔ ارے آفتا ب ! صبح کام پر نہیں جانا ۔ نہیں مصطفی ٰ بھائی ! صبح چھٹی ہے۔ ایک دو دن تک اپنے گاؤں جارہا ہوں۔ اور پانچ سال بعد اپنی بیٹی کو دیکھوں گا۔ خیر ایک دو دن تک آفتاب اپنے گاؤں پہنچ گیا۔ آفتا ب کوایک ماہ ہوگیا تھا۔ ایک دن میں حسب معمول ہوٹل میں کھانا کھا رہاتھا۔ تو آفتا ب ایک میز پر بیٹھا تھا۔ بال بکھر ے ہوئے اور شیوبڑھی ہوئی تھی ۔ میں نے آفتا ب سے کہا تم یہاں کیسے اور کب آئے؟ چند لمحوں بعد اس نے میرا ہاتھ تھاما۔ میں نے کہا تم تو گاؤں تھے کب آئے اور کیا ہوا؟ وہ خاموش تھا۔ وہ کچھ نہ بولا۔ اور ہوٹل بھر ہوا تھا۔ میں آفتا ب کو لے کر ریاض کی سڑک کے چبوترے پر لے گیا۔ میں نے اس کو دھمکی دی کہ اگر تم نے نہ بتایا تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ میں نے دیکھا کہ وہ فضاؤں اور آسمانوں میں ہے۔ کافی دیر ایسے گزری ۔ اور میں جانے لگا۔ تو آفتاب اٹھ کر مجھے گلے لگا کر رونے لگا۔ آفتا ب کی ہچکیاں ہی بند نہیں ہورہی تھیں۔ مصطفی ٰ بھائی یہ کیا ہوگیا ہے میں نے تو سوچانہیں تھا؟ میں نے کہا کہ آفتا ب کیا ہوا؟اس نے کہا کہ میری بیوی نے مجھ سے طلا ق لےلی ۔ اور رونے لگا۔ اور کہنے لگا میری ہی غلطی تھی وہ پڑھی لکھی تھی۔

میں شادی کے ایک ماہ بعد یہاں آگیا وہ مجھ سے کہتی تھی نہ جاؤ ،یہاں پر روکھی سوکھی کھالیں گے۔ لیکن میں چاہتا تھا کہ اپنا گھر بنا لوں بس یہ کر لوں۔ وہ کہتی تھی کہ بہنوں کی شادی کے لیے کچھ پیسے کما لو پھر واپس آجانا۔ میرے گھر کوئی بھی کام ہوتا تومیں اپنے دوست ارشد سے کہہ دیتا کہ تیر ی بھابھی یہ کام کہہ رہی ہے۔ یو ں ارشد روز گھر چلا جاتا تھا۔ میں جب بھی گھر کےلیے جاتا تو میری امی بہنوں کی شادی کا گنوا دیتیں ۔ اور میر ی بیٹی اب چار سال کی ہوگئی تھی۔ اس بار میں اپنے آزاد کشمیر گاؤں گیا اب تو سب کچھ بدل گیا تھا۔ میر ی بیوی میری نہیں رہی۔ میری بیٹی مجھے اب پاپا نہیں کہتی تھی۔ مصطفی ٰ بھائی میں برباد ہوگیا ۔ میں نے حوصلہ دیا کہ پوری بات کروں۔ میں جب گھر گیاتو مجھے پہلے ہی دن محسوس ہوگیا کہ میری بیوی میر ی نہیں رہی ۔ میری بیٹی پاپا نہیں کہتی ہے۔ ایک دن ارشد آیا اس نے پاپاکہنا شروع کردیا۔ اور اسے دیکھ کر میری بیوی بھی خوشی نمایاں ہوئی۔ میں پریشان تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ ایک ہفتہ یوں گزر گیا اور میں اپنی بیوی سے کہا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ وہ ارشد کی گود میں چلی جاتی ہے۔ بیوی نے کہا کہ میں کہتی تھی کہ آپ آجائیں لیکن آپ پیسے کمانے کے چکروں میں نہ آئے۔ آج گڑیا ارشد کو ہی اپنا پاپا سمجھتی ہے۔ آج آپ کا دوست مکمل طور پر آپ کے گھر آچکا ہے۔ اس گھر کا فرد ہوچکا ہے۔ کیا مطلب ! میری کوئی اوقات نہیں ہے۔ بیوی نے کہا اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ آپ شادی کے ایک ماہ بعد چلے گئے تھے اور آج پانچ سال بعد آئے ہیں۔ اس عرصے میں ارشد ہی وہ شخص تھا جو ہم ماں بیٹی کا خیا ل رکھا۔

اور ہم میں ذہنی ہم آہنگی ہے۔ اور اکٹھا رہنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ میں یہ سن کر سکتہ میں آگیا ۔ بیو ی نے کہا میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ اب میرے دل میں آپ کےلیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ارشد بھی یہی چاہتا ہے آپ مجھے چھوڑ دیں تاکہ ہم نئی زندگی شر وع کر سکیں۔ میں ارشد کے پاس گیا اور کہا کہ میرے ہی گھر میں ڈاکہ ڈال دیا۔ ارشد نے کہا کہ میں نے ڈاکہ نہیں ڈالا تم اپنے گھر کی رکھوالی کہاں کررہے تھے؟ اور جو رکھوالی کرتا ہے و ہ گھر کا مالی ہوتاہے۔ میں مجر م ہوں لیکن مجھ سے بڑے مجرم تم ہو۔ تمہاری بیوی ہر عید پر مہندی لگوائے تمہارا انتطار کرتی اور تمہاری بیٹی سے کہتا کہ تمہاری ماما اچھی لگ رہی ہے۔ یہ سن کر وہ خوش ہوجاتی۔ یوں وقت گزرتا گیا۔ ہماری سوچوں اور خیالات میں یکسانیت پروان چڑھتی گئی۔ آفتاب تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو۔ اس معاملے کو ایک خوبصورت خیر باد کہہ کر چھوڑ دو۔ میں تمہاری بیوی سے شادی کرناچاہتاہوں۔ اور تمہاری بیٹی بھی نہیں جانتی ۔ تم کرکٹ کے بارہویں کھلاڑی کے مانند ہو۔ جو ٹیم میں ہوتاہے لیکن کھیل کا حصہ نہیں ہوتا۔

ارشد کی باتیں ہتھوڑا بن کر میرے سر کے اوپر برس رہیں تھی۔ اس نے کہا مصطفیٰ بھائی بڑا تلخ رہا یہ سفر میرا۔ میری زندگی کی ساتھی کسی اور کی ساتھی ہوگئی ۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے برس اپنے ماں ، بہنیں اور بیٹی کےلیے تنہاء چھوڑ دیے۔ جن کی وجہ سے میرا گھر برباد ہورہاتھا۔ انھیں کوئی افسو س نہیں ہورہا تھا۔ انہوں نے میری بیوی پر ان گنت الزام لگا دیے۔ میں نے کہا یہ قصور اس کا نہیں ہے یہ قصور میرا ہے میرے پاس بہت دولت ہے لیکن حقیقی دولت کھو بیٹھا ہوں۔ میں نے ائیر پورٹ پر اپنی بیوی کو طلاق نامہ دے دیا۔ وہ شوہر جس کے لیے پانچ سال راہ تک رہی تھی ۔ اب اسے مزید انتظار نہ کرنا پڑے۔ اوروہ دوسرے شوہر کے پاس ہنسی خوشی زندگی گزارے ۔ یہ کہہ کر آفتاب خاموش ہوگیا۔ آفتا ب کے اندر والا شور تنہائی میں اضافہ کررہا تھا۔ میرے پاس آفتاب کےلیے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ میں اسے گھر میں جانے کی تلقین کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ اس کے بعد آفتا ب نظر نہ آیا ۔ اور کئی ماہ بعدا س ہوٹل سے معلوم ہوا۔ کہ آفتاب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ناجانے اس کہانی میں آفتا ب قصوروار تھا یا اسکی امی، بیوی، بہنیں اپنی رائے کا ضرور اظہار کیجیے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *