ایک رات ایک لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی
ایک رات ایک لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی کہ آ دھی رات اچانک وہ آرام کے ساتھ مو بائل ہاتھ میں لیا اور باہر کمرے سے نکلی اس کے خاوند کو شک ہو گیا کہ میری بیوی کیا کرنے باہر نکلی۔ تھوڑی دیر بعد اس کی بیوی واپس آ کر آرام کے ساتھ اپنے خاوند کے ساتھ چارپائی پر لیٹ گئی۔ دوسری رات اس کے خاوند نے اپنا سیم کارڈ نکال کر اس کے مو با ئل میں ڈال دیا اور بیوی کا سم کارڈ اپنے مو با ئل میں ڈالا۔ جب آ دھی رات ہو گئی تو اس کی بیوی پھر سے آرام کے ساتھ مو بائل اٹھا یا اور کمرے سے با ہر نکل گئی خاوند کو اور شک ہو گیا۔
اورا نتظار کر رہا تھا کہ اب کوئی تو اس کے نمبر پر کال کرے گا لیکن کسی نے بھی کال نہیں کی اور اس کی بیوی واپس آکے لیٹ گئی جب خاوند نے اس کا مو بائل چیک کیا تو اس میں کوئی بھی نہ کال آ ئی اور نہ ہی گئی تو اس کا خاوند اور شک میں پڑ گیا اور سو چھا کہ شاید نمبر ڈیلیٹ کیا ہوگا۔ تیسری رات پھر ویسا ہی ہوا لڑ کی کمرے سے باہر نکلی پانچ منٹ بعد اس کا خاوند بھی چھپ چھپ کے اس کے پیچھے گیا اور وہاں ایک سائیڈ میں جا کے بیٹھ گیا دیکھنے کے لیے کہ اس کی بیوی آ خر کیا کرتی ہے۔ تو جب دیکھا اس کی بیوی گھر کے ایک کنالرے میں جائے نماز بچھا تی تھی اور مو بائل کی روشنی جلا کر نماز میں مشغول تھی جب سلام پھیرا تو دعا کی کہ یا اللہ اگر میری عمر میرے خاوند کی عمر سے زیادہ ہو تو میری آدھی عمر میرے خاوند کو دے دو۔ ۔۔ میری یہ دعا ہے اللہ سب کو ایسے ہی بیوی دے ۔
آپ کی بیٹی کے لیے رشتے کروانے والی ماسی کیوں کوششیں کر رہی ہے۔ ناراض نہ ہونا میں تو سیدھی بات کرتی ہوں۔پلیٹو ں پر ہاتھ صاف کرتی ہوئی موٹی عورت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کی باتوں سے خالہ اور نادیہ پر کیا گزر رہی ہے۔ کہنے لگی اگر کسی اچھی بھلی نظر آ نے والی لڑ کی کو خاندان میں رشتہ نہیں مل رہا ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ لڑ کی میں کوئی خرابی ہے۔ نادیہ اڑی اڑی سی رنگت اور کانپتے ہاتھوں سے ٹرے لیے باہر نکلی میری طرف ایک نظر ڈالی اور پھر کچن میں گھس گئی خواتین کمرے سے باہر نکل رہی تھیں۔ اتنا پڑھا لکھا اور خوبصورت گھر میں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لڑکی اچھی نہیں ہوگی۔ اس لیے مجھے اور کچھ سننے کی ہمت نہیں رہی اور میں اس کے پیچھے کچن میں آ گیا۔ وہ ہاتھ میں پیاز لیے کھڑی تھی اور آ نکھوں میں آنسوؤں کا سیلا ب تھا جو گالوں پر بہہ رہا تھا۔
میں نے پیاز اس کے ہاتھوں سے لے لیا پیاز تو کڑوا نہیں ہے زندگی کڑ وی ہے نا۔ تو یہ زندگی مجھے دے دو۔ میں نے اس کے آ نسو اپنی ہتھیلیوں پر سجا لیے ہیں یہ بہت قیمتی موتی ہیں۔ انہیں ضائع نہیں کرو۔ وہ حیرت اور بے یقینی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اور میں دل ہی دل میں خود کو کوس ر ہا تھا میں نے امی کے بار بار کہنے کے باوجود اس رشتے کے لیے حامی نہیں بھری تھی۔ حالانکہ شریک ِ حیات کے لیے جن خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ تمام خوبیاں نادیہ میں موجود تھیں۔ میں ہی کیا خاندان میں کوئی بھی اچھے مقام پر پہنچتا وہ خاندان سے باہر شادی کرنے کی ضد لگا لیتا تھا۔ اور اس طرح نا جانے کتنی لڑ کیاں اچھے رشتوں کی تلاش میں لوگوں کے طعنے اپنی کردار کشی برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتی تھیں۔ اور پیاز کاٹنے کے بہانے آ نسو بہاتی رہتی تھیں
Leave a Reply