چور
استاد صاحب بیوی کے ساتھ بھتیجے کی شادی کی تقریب میں پہنچے تو بارات سے زیادہ استاد صاحب کا استقبال کیا گیا اور کرتے بھی کیوں نہ دُلہا استاد صاحب کا بھتیجا ہونے کے ساتھ ساتھ طالبعلم بھی تھا۔
سب ہی کہتے تھے کہ خُدا نے آپ کی شخصیت میں عجیب کشش رکھی ہے جو بھی طالبعلم آپ سے پڑھ لیتا ہے وہ ہمیشہ آپ جیسا بننے کی خواہش کرتا ہے اور یہ سچ بھی تھا۔
استاد صاحب شہر کی بڑی جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
استاد صاحب کے طالبعلموں نے اپنی ترقی اور تربیت سے ہمیشہ اُن کا نام روشن کیا تھا۔
استاد صاحب کو بھی بہت ناز تھا کہ قیامت والے دِن جب اعمال کی پوچھ گُچھ ہوگی تو میں کہہ دوں گا کہ میرے اعمالِ صالح میرے طالبعلم ہیں، جِن کی میں نے تربیت کی اور معاشرے میں بھلائی پھیلانے کا سبب بنا۔
شادی کی تقریب ، رات کو تقریباً بارہ بجے ختم ہوئی استاد صاحب بیوی کے ساتھ کار میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہونے لگے ابھی اگلی ہی سڑک پر پُہنچے تھے کہ چھ موٹر سائیکل سواروں نے استاد صاحب کی کار کو گھیرے میں لے لیا۔
چار سوار موٹر سائیکلوں سے اُتر کر کار کے سامنے آگئے اور دو موٹر سائیکل پر ہی بیٹھے رہے۔
ایک نے استاد صاحب کی کنپٹی پر پستول رکھی اور بولا “ابے او ، گاڑی سے باہر آ جاؤ اور آنٹی کو باہر آنے کو بول۔ جلدی کر اور اگر کچھ گڑ بڑ کی تو بھیجے میں ساری گولیاں اُتار دوں گا۔”
استاد صاحب نے بیوی کو اشارہ کیا تو وہ بھی کار سے باہر آگئی۔
ایک چور نے استاد صاحب کی تلاشی لی جو کچھ اُن کے مطلب کا تھا لے لیا اور ایک چور نے اُن کی بیوی کے سارے زیور زبردستی اُتروا لیے۔
ایک موٹرسائیکل سوار پیچھے سے بولا یار گاڑی بھی اچھی ہے آج بڑا ہاتھ مارتے ہیں چلو گاڑی بھی لے اُڑتے ہیں کوئی ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔
دوسرا چور بولا ٹھیک ہے پھر اِن دونوں کو مار دیتے ہیں ورنہ پھنس جائیں گے۔
ایک اور بولا نہیں یار اِن کو باندھ کر سڑک کی دوسری جانب پھینک دو صُبح کوئی کھول دے گا کیوں بے گناہوں کو مارنا ہے۔
استاد صاحب بولے بیٹا جو کچھ چاہیے لے لو لیکن ہمیں کچھ نہ کرنا میرے گھر میں چھوٹے بچے ہیں اور ہمارے سِوا اُن کا کوئی نہیں ہے خُدا کا واسطہ ہم پر رحم کرو۔
ایک موٹر سائیکل سوار موٹر سائیکل سے اُترا اور بولا تُم لوگ سامان سمیٹو میں اِن کو باندھتا ہوں جیسے ہی وہ استاد صاحب کے سامنے پہنچا تو بولا اوہ یار یہ تو میرے استاد ہیں ، چھوڑ دو اِن کو سب کچھ پھینک دو چلو یہاں سے بھاگو۔
جونہی سب نے اپنی ساتھی کی بات سُنی اُنہوں نے سب کچھ وہاں پھینکا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔
استاد صاحب کی بیوی بولی شُکر ہے آپ کی وجہ سے بچ گئے ورنہ آج بہت نقصان ہوجاتا۔
استاد صاحب وہیں زمین پر گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے اُن کی بیوی بولی کیا ہوا آپ رو کیوں رہے ہیں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
استاد صاحب بولے میری تو زندگی بھر کی کمائی لُٹ گئی مُجھے شرم آتی ہے اپنے آپ پر کہ میں نے معاشرے میں چور پیدا کیے ہیں ۔
استاد صاحب بولے میں اپنے طالبعلموں کی تربیت نہیں کرسکا مجھے تو ناز تھا کہ قیامت والے دِن یہ لوگ میری بخشش کا سبب بنیں گے لیکن اب مُجھے ڈر لگ رہا ہے کہ قیامت والے دِن فرشتے مُجھے گھسیٹ کر جہنم میں لیجائیں گے کہ میں اپنا فرض پورا نہ کرسکا۔
استاد صاحب بولے چور وہ نہیں چور تو اُن کا اُستاد نِکلا جو اپنا فرض پورا نہ کرسکا۔
استاد صاحب کہتے وہ میرے دل سکون لے گئے، وہ مجھ سے میرا مان لے گئے کہ میرے طالبعلم غلط کام نہیں کر سکتے۔
استاد صاحب بے بسی سے کار کے ساتھ بیٹھے بار بار بول رہے تھے چور وہ نہیں چور تو میں ہوں , چور وہ نہیں چور تو میں ہوں.
کیا آپ بھی استاد ہیں؟ کیا آپ نے اپنا فرض پورا کیا؟
منقول
Leave a Reply