حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ دھوپ میں بیٹھے اپنا کوئی کپڑا سی رہے تھے۔ کہ سورج کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اور گرمی بڑھ گئی۔ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سورج کی طرف دیکھا اور فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے غلاموں کے لیے تیزی؟
سورج نے اسی وقت اپنی گرمی سمیٹ لی یہ زمین اور سورج کو کس نے بتا دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ﷲ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں۔ یہ تمہیں اشارہ کریں تو رُک جانا ۔ وجہ یہی ہے کہ جب بندہ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا سچّا غلام بن جائے۔ تو اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کو اس کا فرمانبردار بنا دیتا ہے۔ (بحر العلوم شرح مثنوی ١٢)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن جنگل جا رہے تھے۔ کہ اُنھوں نے ایک چرواہے کی آواز سنی۔ وہ اونچی اونچی کہہ رہا تھا۔ میرے پاس آ.. میں تیرے سر میں کنگھی کروں۔ ‘ جوئیں چنوں ‘ تیرا لباس میلا ہو گیا ہے۔ تو دھوؤں ‘ تیرے موزے پھٹ گئے ہوں تو وہ بھی سیئوں ‘ تجھے تازہ تازہ دُودھ پلاؤں۔ ‘ تو بیمار ہو جائے تو تیری تیمارداری کروں..اگر مجھے معلوم ہو کہ تیرا گھر کہاں ہے۔ تو تمھارے لیے روز گھی اور دُودھ لایا کروں.. میری سب بکریاں تم پر قربان..
اَب تو آ جا.. “حضرت موسیٰ علیہ السلام اِس کے قریب گئے.. اور کہنے لگے.. ” ارے احمق.. تُو یہ باتیں کس سے کر رہا ہے۔..?”چرواہے نے جواب دیا.. ” اُس سے کر رہا ہوں جس نے تجھے اور مجھے پیدا کیا۔ اور یہ زمین آسمان بنائے.. “یہ سن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر کہا.. ” ارے بدبخت..تُو اِس بیہودہ بکواس سے کہیں کا نہ رہا.. بجائے مومن کے تُو تو کافر ہو گیا۔ خبردار ایسی بے معنی اور فضول بکواس بند کر.. تیرے اِس کفر کی بدبو ساری دُنیا میں پھیل گئی..ارے بے وقوف.. یہ دُودھ ‘ لسی ہم مخلوق کے لیے ہے۔ ‘ کپڑوں کے محتاج ہم ہیں ‘ حق تعالیٰ ان حاجتوں سے بے نیاز ہے.. نہ وہ بیمارپڑتا ہے نہ اِسے تیمارداری کی ضرورت ہے۔ نہ اِس کا کوئی رشتہ دار ہے۔.. توبہ کر اور اِس سےڈر.. “حضرت موسیٰ علیہ السلام کے غیظ و غضب میں بھرے ہوئے یہ الفاظ سن کر چرواہے کے اوسان خطا ہو گئے۔ اور وہ خوف سے تھرتھر کانپنے لگا۔
‘ چہرہ زرد پڑ گیا اور بولا.. ”
اے خدا کے جلیل القدر نبی ! تُو نے ایسی بات کہی کہ میرا منہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا اور مارے ندامت کے میری جان ہلاکت میں پڑ گئی۔..”یہ کہتے ہی چرواہے نے سرد آہ کھینچی ‘ اپنا گریبان تار تار کیا۔ اور دیوانوں کی طرح اپنے سر پر خاک اُڑاتا ہوا غائب ہو گیا۔..حضرت موسیٰ علیہ السلام حق تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے کوہِ طور پر گئے۔ تو خدا نے فرمایا.. ” اے موسیٰ ! تو نے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کیوں کیا..؟ تو دُنیا میں جدائی کے لیے آیا ہے۔ یاملاپ کے لیے..؟خبردار ! اِس کام میں احتیاط رکھ۔.. ہم نے اپنی مخلوق میں ہر شخص کی فطرت الگ بنائی ہے۔ اور ہر فرد کو دوسروں سے جدا عقل بخشی ہے۔.
. جو بات ایک کے حق میں اچھی ہے۔
وہ دوسرے کے لیے بُری ہے۔.. ایک کے حق میں تریاق کا اثر رکھتی ہے۔ وہی دوسرے کے لیے زہر ہے۔.. ایک کے حق میں نور اور دوسرے کے حق میں نار۔.. ہماری ذات پاکی و ناپاکی سے مبریٰ ہے۔..اے موسیٰ ! یہ مخلوق ہم نے اِس لیے پیدا نہیں فرمائی کہ اِس سے ہماری ذات کو کوئی فائدہ پہنچے۔.. اِسے پیداکرنے کا مقصد یہ ہے۔ کہ اِس پر ہم اپنے کمالات کی بارش کریں۔.. جو شخص جس زبان میں بھی ہماری حمد و ثناء کرتا ہے۔
اِس سے ہماری ذات میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوتی۔.. مدح کرنے والا خود ہی پاک صاف ہوتا ہے۔.. ہم کسی کے قول اور ظاہر پر نگاہ نہیں رکھتے ہم تو باطن اور حال دیکھتے ہیں۔..اے موسیٰ ! خردمندوں کے آداب اور ہیں دل جلوں اور جان ہاروں کے آداب اور.. “حضرت موسیٰ نے جب خدا کا یہ عتاب آمیز خطاب سنا تو سخت پشیمان ہو ئے اور بارگاہِ الٰہی میں نہایت ندامت اور شرم ساری سے معافی مانگی.
. پھر اِسی اضطراب اور بے چینی میں اِس چرواہے کو ڈھونڈنے جنگل میں گئے.. صحرا و بیابان کی خاک چھان ماری پر چروہے کا کہیں پتا نہ چلا۔.. اِس قدر چلے کہ پیروں میں چھالے پڑ گئے لیکن تلاش جاری رکھی آخر آپ اِسے پا لینے میں کامیاب ہوئے
..چرواہے نے انھیں دیکھ کر کہا..
” اے موسیٰ ! اب مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے کہ یہاں بھی آ پہنچے..? “حضرت موسیٰ نے جواب دیا..” اے چرواہے ! میں تجھے مبارک دینے آیا ہوں۔.. تجھے حق تعالیٰ نے اپنا بندہ فرمایا اور اِجازت عطا کی کہ جو تیرے جی میں آئے۔ ‘ بلا تکلف کہا کر.. تجھے کسی ادب و آداب ‘ قاعدے ضابطے کی ضرورت نہیں۔.. تیرا کفر اصل دین ہے۔ اور دین نورِ جاں۔.. تجھے سب کچھ معاف ہے۔ بلکہ تیرے صدقے میں تمام دُنیا کی حفاظت ہوتی ہے۔
.. “چرواہے نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔.. ” اے پیغمبر خدا ! اب میں اِن باتوں کے قابل ہی کہاں رہا ہوں۔ کہ کچھ کہوں۔.. میرے دِل کا خون ہو چکا ہے۔.. اب میری منزل بہت آگے ہے۔
.. تُو نے ایسی ضرب لگائی کہ ہزاروں ‘ لاکھوں سال کی راہ طے کر چکا ہوں۔.. میرا حال بیان کے قابل نہیں اور یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ۔اِسے بھی میرا احوال مت جان۔.. “مولانا رومی اِس حکایت سے ما حاصل یہ نکالتے ہیں۔ کہ ” اے شخص جو تو حق تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے۔ کیا سمجھتا ہے..؟
تُو تو ابتداء سے اِنتہا تک ناقص اور تیرا حال و قال بھی ناقص.. یہ محض اِس پروردگار رحمن و کریم کا کرم ہے۔ کہ وہ تیرے ناقص اور گندے تحفے کو قبول فرماتا ہے۔
Leave a Reply