سخت سردی اور فجر کی نماز؟؟؟
رات کا آخر ی پہر تھا۔ سردی ایسی تھی کہ ہڈیوں کے اندر تک گھسی جارہی تھی ۔ بارش بھی اتنی تیز تھی جیسے آج اگلی پچھلی کسر نکال کر رہے گی۔ میں اپنی کار میں دوسرے شہر کے ایک کاروباری دورے سے واپس آرہاتھا اور کا ر کا ہیڑ چلنے کے باوجود میں سردی محسوس کر رہا تھا۔ دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ بس جلد از جلد گھر پہنچ کر بستر میں گھس کر سوجاؤں۔
مجھے اس وقت کمبل اور بستر ہی سب سے بڑی نعمت لگ رہے تھے ۔ سڑکیں بالکل سنسان تھیں ۔ حتیٰ کہ کوئی جانور بھی نظر آرہاتھا۔ لوگ اس سرد موسم میں اپنے گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے جیسے ہی میں نے کار اپنی گلی میں موڑی تو مجھے کا ر کی روشنی میں بھیگتی بارش میں ایک سایہ نظر آیا۔اس نے بارش سے بچنے کےلیے سر پر پلاسٹک کے تھیلے جیسا کچھ اوڑھا ہوا تھا او ر وہ گلی میں کھڑے پانی سے بچتا بچاتا آہستہ آہستہ چل رہاتھا۔ مجھے شدید حیرانی ہوئی کہ اس موسم میں بھی کوئی شخص اس وقت کیسے باہر نکل سکتا ہے اور مجھے تر س آیا کہ پتہ نہیں کس مجبوری نے اسے اس پہر اس طوفانی بارش میں باہر نکلنے پر مجبور کیا۔میں نے گاڑی اس کے قریب جاکر روکی اور شیشہ نیچے کرکے اس سے پوچھا ۔۔ “بھائی صاحب
آپ کہاں جارہے ہیں؟ آئیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔” اس نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ “شکریہ بھائی۔۔۔ بس میں یہاں قریب ہی تو جار ہا ہوں اس لیے پیدل ہی چلا جاؤں گا۔ ” میں نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔ “اس وقت آپ کہا ں جارہے ہیں؟” اس نے بڑی متانت سے جواب دیا۔۔ “مسجد” میں نے حیرانی سے پوچھاَ۔۔ “اس وقت مسجد میں کیا کرنے جارہے ہیں؟” اس نے کہا ! “میں اس مسجد کا مؤذن ہوں اورفجر کی اذان دینے کے لیے مسجد میں جارہاہوں”۔ یہ کہہ کر وہ اپنے رستے پر چل پڑا اور مجھے ایک نئی سوچ میں گم کر گیا۔ کیاآج تک ہم نے کبھی سوچا ہے کہ سخت سردی کی رات میں طوفان ہو یا بارش ، کون ہےجو اس وقت پر اللہ کے بلاوے کی صدا بلند کرتا ہے ؟؟؟ کون ہے جو ہمیں بتا تا ہے کہ “نمازنیند سے بہتر ہے”؟؟؟؟
کون ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ “آؤ نماز کی طرف۔۔ آؤ کامیابی کی طرف؟؟؟ اور اسے اس کامیابی کا کتنا یقین ہے۔ کہ اسے اس فرض کےادا کرنے سے نہ تو سردی روک سکتی ہے اور نہ بارش۔۔۔ جب ساری دنیا اپنے گرم بستروں میں نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے۔ وہ اپنے فرض کو ادا کرنے کےلیے اٹھ جاتا ہے۔ تب مجھے علم ہوا کہ یقیناً ایسے ہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے اللہ ہم پر مہربان ہے۔ اور نہی لوگوں کی برکت سے دنیا کا نظام چل رہا ہے ۔ میرا دل چاہاکہ نیچے اترا کر اسے سلام کروں لیکن وہ جاچکا تھا اور تھوڑی دیر بعد جیسے ہی اللہ اکبر کی میٹھی صدا گونجی، میرے قدم بھی مسجد کی جانب اٹھ گئے اور آج مجھے سردی میں مسجد کی طرف چلنا گرم بستر اور نیند سےبھی اچھا لگ رہا تھا۔
Leave a Reply