نیک بادشاہ

پرانے زمانے کی بات ہے ۔ایک ملک پر سخت گیر بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ رعایا پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کرتا اور ٹیکس کے پیسے دوسرے ممالک میں جاکر فضولیات میں ضائع کرتا۔بادشاہ کی دیکھا دیکھی وہاں کے تاجروں نے بھی عوام پر ظلم شروع کر دیا۔ ایک روپے والی چیز پانچ روپے

کی بیچ کر ناجائز منافع کماتے ۔بادشاہ کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے ،عوام کس حال میں ہیں۔ بادشاہ جب رعایا پر ٹیکس لگا کر تھک گیا تو عوام نے ٹیکس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ۔ بادشاہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک بڑے ملک سے سود پر قرض لیا جو آمدنی سے زیادہ تھا۔ملک قرض وسود کی دلدل میں دھنستا گیا۔اتنے میں بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔ بادشاہ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بنا جو نیک ،صالح اور ایمان دار تھا۔ وہ اپنی رعایا کو خوش حال دیکھنا چاہتا تھا۔اس نے غریبوں پر ٹیکس کم کر دیے اور امیر لوگوں پر ٹیکس لگائے ،تاکہ ملک کا قرضہ اُتر سکے ،لیکن تاجروں نے ٹیکس دینے کے بجائے چیزیں مہنگی کردیں اور طرح طرح کے جتن کرنے لگے کہ کسی طرح بادشاہ کی حکومت ٹھیک نہ چلے۔

جب بادشاہ کو خبر ہوئی کہ تاجر عوام سے چیزوں کی زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے تو بادشاہ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔اس نے اپنے وزیر کو کمہار کے روپ میں بازار بھیجا کہ جاؤ بازار سے ایک مٹکا خریدلاؤ اور پوری مارکیٹ سے قیمت کی جانچ کر ناتا کہ پتا چلے کہ کون کون تاجر عوام کو لوٹ رہا ہے۔ وزیر ایک دوکان پر گیا،مٹکے کی قیمت معلوم کی۔دوکان دار نے چارروپے بتائی۔دوسرے دوکان سے معلوم کیا،اس نے پانچ روپے بتائی ۔ غرض سب دوکان داروں نے مہنگائی کے لئے بادشاہ کو ذمے دار ٹھہرایا اور خود کو لا چار ظاہر کیا۔ساری باتیں وزیر نے بادشاہ کو بتا دیں۔ اگلے دن بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ آج مٹکالے کرجاؤ اور بیچنا شروع کر دو ۔وزیر نے ایسا ہی کیا بازار کے سب دوکان داروں نے اس کی قیمت 50پیسے سے زیادہ قیمت نہیں لگائی۔وزیر نے کہا:”کل تو آپ یہی مٹکا 5روپے کا دے رہے تھے اور آج پچاس پیسے کا خرید رہے ہو۔ “ وزیر نے سب واقعات بادشاہ کو بتا دیے۔بادشاہ نے ان تاجروں کو سخت سزا دی ،جو عوام کا خون چوس رہے تھے ۔چند تاجروں کو سزا دی تو باقی سب تاجر راہ راست پر آگئے۔اس طرح تاجروں نے ٹیکس بھی دینا شروع کر دیے جس سے ملک کا قرضہ بھی اُتر گیا۔ہر چیز سستی ہو گئی ،ملک خوش حال ہو گیا۔اب عوام نیک بادشاہ کو دعا دے رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *