بهالو

ایک جنگل کے کنارے ایک خوبصورت لڑکی رہتی تھی۔وہ جتنی خوبصورت تھی ،اتنے ہی خوبصورت اس کے بال تھے۔اس کے سنہری بالوں کے لچھے دیکھ کر سب ہی اس کو ”گولڈی لوکس“کہتے تھے۔ہر صبح جب اس کی ماں گولڈی لوکس کے بالوں میں کنگھی کرتی تو کہتی ”میری پیاری گولڈی لوکس کے بال کتنے پیارے چمکیلے اور خوبصورت ہیں

جیسے سونے کے لچھے ہوں۔ “ ایک دن گولڈی لوکس صبح کی سیر کو نکلی تو چلتے چلتے جنگل کی طرف نکل گئی۔جنگل میں پرندے چہچہارہے تھے اور پھول کھلے ہوئے تھے۔درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے اسے بہت اچھے لگے اور وہ جنگل کے اندر گھستی چلی گئی۔چلتے چلتے اس کو احساس ہوا کہ وہ راستہ بھول گئی ہے۔ اس کو اندازہ بھی نہیں ہورہا تھا کہ وہ کس طرح جنگل سے نکل کر اپنے گھر جائے۔ وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہی تھی کہ اس نے درختوں کی طرف دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا۔وہ بھاگ کر اس طرف گئی تو اس نے دیکھا کہ درختوں کے درمیان ایک چھوٹا سا خوبصورت سامکان ہے۔ اس نے اس مکان کے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ دروازہ کھلتا چلا گیا۔وہ مکان کے اندر داخل ہوئی تو اس نے دیکھا کہ میز پر دلیے کے تین پیالے رکھے ہوئے ہیں۔ گولڈی لوکس کو پتہ نہیں تھا کہ یہ مکان تین بھورے بھالوؤں کا ہے۔بڑا بھالو جو کہ چھوٹے بھالو کا باپ تھا،درمیانہ بھالو جو چھوٹے بھالو کی ماں تھی،اور منابھالو جو کہ ان کا بیٹا تھا۔ اس صبح اماں بھالو نے دلیہ پکایا تھا تاکہ وہ ناشتہ کرسکیں۔مگر جب ابابھالو نے دلیہ چکھا تو کہا”یہ دلیہ تو بہت گرم ہے اس سے میری زبان ہی جل گئی۔چلو اس کے ٹھنڈا ہونے تک صبح کی سیر کر آئیں۔“ جب گولڈی لوکس نے دروازہ کھٹ

کھٹایا تو کوئی جواب نہیں آیا کیونکہ تینوں بھالو سیر کو گئے تھے۔ گولڈی لوکس جب گھر میں داخل ہوئی تو صرف آتش دان میں آگ جل رہی تھی اور لکڑی چٹکنے کی آواز آرہی تھی۔اس نے چاروں طرف دیکھا تو میز پر تین پیالے رکھے ہوئے تھے۔ایک بڑا پیالہ ،دوسرا درمیانہ پیالہ اور تیسرا پیالہ بہت ہی چھوٹا سا تھا۔ ان میں دلیہ تھا اور دلیہ کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔دلیے کو دیکھتے ہی گولڈی لوکس کی بھوک چمک اٹھی اور اس نے چمچہ اٹھایا اور بڑے پیالے کو دلیے کو چکھا۔وہ!یہ تو بہت گرم ہے۔اس نے درمیانی پیالے کا دلیہ چکھا تو یہ بہت ٹھنڈا تھا۔ چھوٹے پیالے کا دلیہ نہ زیادہ گرم تھا،نہ زیادہ ٹھنڈا۔اس نے وہی دلیہ کھانا شروع کیا اور سارا دلیہ کھا گئی۔میز کے گرد تین کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔بڑی کرسی بہت اونچی تھی،درمیانی کرسی بہت نرم تھی ،چھوٹی کرسی میں جو بیٹھی تو اسے ٹھیک لگی۔ وہ اس پر بیٹھ کر جھولنے لگی۔جھولتے جھولتی آخر کرسی ٹوٹ گئی اور گولڈی لوکس زور سے زمین پر گر گئی۔پھر وہ دوسرے کمرے میں گئی تو وہاں بھی تین بستر بچھے ہوئے تھے،بڑا بستر بہت سخت تھا،درمیانہ بستر بہت نرم تھا اور چھوٹا بستر بہت نرم وملائم تھا۔ گولڈی لوکس بہت ہی تھک گئی تھی اس لیے وہ چھوٹے بستر پر لیٹ گئی اور لیٹتے ہی اسے نیند آگئی۔ اب ان بھالوں کی سنیے۔جب یہ تینوں بھالو صبح کی سیر کرکے واپس آرہے تھے تو اپنے ساتھ لکڑیاں بھی جمع کرکے لائے تھے۔ابابھالو نے بڑا بنڈل بنایا،اماں بھالو نے درمیانہ گٹھا بنایا اور منابھالو نے سب سے چھوٹا گٹھا بنایا۔ جب یہ تینوں اپنے مکان کے دروازے پر آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دروازہ کھلا ہوا ہے ۔جب کہ وہ اندر آئے

تو انہوں نے دیکھا کہ دلیے کو کسی نے چھیڑا ہے۔ ابا بھالو نے کہا”میرادلیہ کس نے چکھا؟“ اماں بھالو نے کہا”اور میرادلیہ کس نے چکھا؟“ منابھالو بولا”میرادلیہ کس نے کھایا اور کھاکے ختم کر دیا؟“ ابابھالو پریشان ہو کر کرسی پر بیٹھے تو کہا”میری کرسی پر کون بیٹھنا چاہتا تھا؟“ اماں بھالو کی کرسی بھی اپنی جگہ پر نہیں تھی۔ تھوڑی کھسکی ہوئی تھی اس نے یہ دیکھ کر کہا ”میری کرسی پر کون بیٹھا؟“ آخر میں منا بھالو چیخ کر بولا”میری کرسی پر کوئی بیٹھا؟کس نے میری کرسی توڑ دی؟“ ابا بھالو نے چاروں طرف دیکھا اور پھر وہ سب دوسرے کمرے میں گئے۔ ابا بھالو بولے”میرے پلنگ پر کون لیٹا تھا؟“ اماں بھالو بولی”اور میرے پلنگ پر کون لیٹا تھا؟“ منابھالو بولا”اور میرے پلنگ پر کون لیٹا اور اب بھی سویا ہوا ہے؟“ ابا بھالو بولے”ہائیں کون لیٹا ہوا ہے؟“ ابابھالو کی بھاری آواز سن کر گولڈی لوکس جاگ گئی۔ اس نے جب تین بھالوؤں کو دیکھا تو خوف زدہ ہوکر ڈر گئی اور بستر سے چھلانگ لگا کر بھاگ کھڑی ہوئی اور دوڑتی چلی گئی۔بھاگتے بھاگتے وہ اچانک ٹھیک راستے پر پہنچ گئی اور وہاں سے اپنے گھر چلی گئی،گھر پہنچ کر اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور پکا ارادہ کرلیا کہ وہ آئندہ جنگل میں نہیں جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *