خوشی کے آنسو

اس بڑی سی دنیا کے کسی حصے میں ایک سر سبز اور شاداب جنگل تھا۔جس کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی تھی۔یہیں ایک سفید کبوتری اپنے ایک بچے کے ساتھ بڑے چین وآرام سے رہتی تھی۔ایک دن کبوتری اپنے دانے دُنکے کی تلاش میں اپنے گھونسلے سے نکلی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ

واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کا بچہ گھونسلے میں نہیں ہے۔اس نے اپنے بچے کو گھونسلے کے آس پاس بہت ڈھونڈا لیکن اس کا کہیں پتا نہ چلا۔کبوتری کا ننھا سا دل غم سے بھر گیا اور وہ یہ طے کرکے گھونسلے سے نکلی کہ جب تک بچہ نہیں ملے گا وہ اسے ڈھونڈتی رہے گی۔ وہ اڑتی رہی۔ہر طرف اپنے بچے کو تلاش کرتی رہی۔وہ کہیں نہ ملا۔آخر تھک ہار کر وہ نہر کے کنارے آبیٹھی اور رنج اور غم کے مارے رونے لگی۔ وہیں ایک مچھلی پانی میں تیر رہی تھی۔اس نے جو کبوتری کو اس طرح روتے دیکھا تو پانی میں سے سر نکالا اور بولی،”اے خوبصورت کبوتری!تم پر کیا مصیبت آئی ہے جو اس طرح رو رہی ہو؟کیا تم بیمار ہو؟“ کبوتری نے جواب دیا،”میں بیمار نہیں ہوں۔ میں اس لئے رو رہی ہوں کہ آج جب میں اپنے گھونسلے میں واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ میرا چھوٹا سا بچہ وہاں نہیں ہے۔مجھے ڈر یہ ہے کہ وہ جنگل کی سیر کرنے نکل گیا ہو گا اور چونکہ وہ ابھی بہت چھوٹا ہے اس لئے گم ہو گیا ہو گا۔“ مچھلی نے کہا،”تمہارا فرض تھا کہ اس کی نگرانی کرتیں۔ میں بھی تمہاری طرح ایک ماں ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ تمہیں اس وقت کتنا رنج ہو گا۔“ کبوتری نے کہا،”میں اس لئے اور بھی زیادہ پریشان ہوں کہ میرا

بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے ۔وہ نہیں جانتا کہ اپنی حفاظت کیسے کرے۔مچھلی نے کہا،”میں تمہارے بچے کو ڈھونڈنے میں تمہاری مدد کروں گی۔ میں اس کی تلاش میں اس نہر کے آخری سرے تک جاتی ہوں۔“ کبوتری نے کہا،”تمہاری اس مہربانی کا شکریہ لیکن وہ تو پرندہ ہے ۔پانی میں نہیں رہ سکتا۔“مچھلی بولی،”ہو سکتا ہے اسے پیاس لگی ہو اور وہ پانی پینے نہر میں آیا ہو۔ اس لئے میں اس کو ڈھونڈنے جاتی ہوں۔تم بھی اسے ڈھونڈو۔رونے دھونے سے کوئی فائدہ نہیں۔اس سے تمہارا بچہ ملنے سے تو رہا۔“ کبوتری نے مچھلی کا شکریہ ادا کیا اور اسے اللہ حافظ کہہ کر اپنے بچے کی تلاش میں نکل گئی۔بڑی دیر تک وہ اسے ڈھونڈتی رہی لیکن جب وہ نہ ملا تو تھک ہار کر ایک کھیت میں زمین پر بیٹھ گئی۔ اسے اپنا بچہ بہت یاد آرہا تھا۔اس کا دل بھر آیا اور وہ رونے لگی۔ایک خرگوش جو کھیت میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا،نے اسے دیکھا۔وہ اس کے پاس آیا اور پوچھنے لگا،”کیا بات ہے؟کیوں رو رہی ہو؟اگر بھوکی ہو تو میں تمہیں اس کھیت میں لے چلتا ہوں۔ یہاں تمہارے کھانے پینے کے لئے بہت مزیدار چیزیں ہیں۔“کبوتری نے روتے ہوئے جواب دیا،”میں بھوکی نہیں ہوں۔“ خرگوش بولا،”پھر کیا بات ہے۔کیوں روتی ہو؟“ کبوتری نے کہا،”میں اس لئے رو رہی ہوں کہ میرا پیارا چھوٹا سا بچہ کھو گیا ہے۔ صبح سے یہ وقت ہو گیا ہے،وہ مجھے نہیں ملا۔میں نے ہر طرف اسے تلاش کر لیاہے۔“خرگوش اگر چہ کھانے میں مصروف تھا لیکن اس نے کبوتری کو تسلی دی اور کہنے لگا،”رنجیدہ مت ہو۔میں تمہارے بچے کو تلاش کرنے میں تمہاری مدد کروں گا۔ جتنی تیزی سے میں دوڑ سکتا ہوں،دوڑوں گا اور سارے جنگل میں اسے تلاش کروں گا۔“کبوتری نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اڑ گئی۔خرگوش بھی کبوتری کے بچے کو

جنگل میں تلاش کرنے کے لئے روانہ ہو گیا۔اپنے بچے کی تلاش میں اڑتے اڑتے کبوتری کی نگاہ ایک گدھے پر پڑی جو ایک سبزہ زار میں کھڑا گھاس چر رہا تھا۔ وہ اس کے پاس آئی اور پوچھنے لگی،”کیا تم نے ایک چھوٹا سا سفید کبوتر دیکھا ہے؟“ گدھے نے اپنی پوری حماقت کے ساتھ جواب دیا،”تم نے بھی عجیب بے کار سوال کیا ہے۔کیا تم نے آج تک کوئی گدھا ایسا دیکھا ہے جو سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتا ہو؟ہم گدھے ہمیشہ یا تو گھاس کھاتے رہتے ہیں یا بوجھ اٹھائے چلتے رہتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں ہمارا سر نیچے جھکا رہتا ہے۔“ اسی دوران ایک کالی بلی وہاں آگئی اور یونہی پوچھنے لگی،”کیا بات ہے؟“ گدھے نے کہا،”اس کبوتری کا بچہ کھو گیا ہے۔تم نے تو اسے نہیں دیکھا؟“ بلی بولی،”افسوس کہ میں نے اسے نہیں دیکھا۔ اگر وہ مجھے مل جاتا تو میرے ناشتے کا انتظام ہو جاتا۔“ یہ الفاظ سن کر کبوتری کا دل پھر بھر آیا اور وہ رونے لگی۔ بلی کبوتری کو روتا دیکھ کر بولی،”میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو تاکہ میں تمہیں کھا جاؤں۔ اس طرح تمہارا غم بھی مٹ جائے گا اور میری بھوک کا علاج بھی ہو جائے گا۔“ گدھا بلی کی یہ باتیں سن کر غصے میں آگیا اور ڈانٹ کر بلی سے کہنے لگا،”اگر تو اسی وقت یہاں سے چلی نہ گئی تو تیرے ایسی لات رسید کروں گا کہ تو گاؤں کے بھوکے کتوں کے پاس جا پڑے گی۔ “ بلی نے جو یہ بات سنی تو وہاں سے بھاگ جانے میں ہی اپنی خیریت سمجھی۔بلی کے جانے کے بعد گدھا کبوتری سے بولا،”جلدی کرو۔رات آرہی ہے ۔تم اڑ جاؤ۔بلی کی باتوں سے خود کو ہلکان نہ کرو۔“ کبوتری نے

گدھے کا شکریہ ادا کیا اور اسے اللہ حافظ کہہ کر پھر اپنے بچے کی تلاش میں اڑ گئی۔ اب رات کی سیاہ چادر آہستہ آہستہ پھیلتی جا رہی تھی۔تھکی ہاری،غم زدہ کبوتری نے ناچار اپنے گھونسلے کا رخ کیا۔جب وہ گھونسلے میں پہنچتی تو خوشی سے چلا اٹھی،”میرے بچے!“اس کا ننھا سفید بچہ گھونسلے میں بیٹھا ہوا تھا۔کبوتری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے،مگر یہ خوشی کے آنسو تھے۔ اس نے اپنے بچے سے پوچھا،”تم کہاں تھے؟“ بچے نے جواب دیا،”میں ذرا اِدھر اُدھر سیر کرنے گھونسلے سے نکل گیا تھا لیکن جب واپس آنے کے لئے پلٹا تو گھر کا راستہ بھول گیا۔“ کبوتری نے پوچھا،”پھر یہاں تک کیسے پہنچے؟“ بچے نے جواب دیا،”مجھے راستہ تو یاد نہیں رہا تھا۔ بس اندر سے کسی نے میری رہنمائی کی اور مجھے یہاں پہنچا دیا۔“ کبوتری کو یاد آیا کہ وہ جب چھوٹی سی تھی تو ایک دن اسی طرح کھو گئی تھی۔وہ کہنے لگی،”میرے بچے !تم ٹھیک کہتے ہو۔جب کوئی اپنی راہ کھو دیتا ہے تو گھر کی محبت اس کو راہ دکھاتی ہے اور گھر تک پہنچا دیتی ہے ۔چاہے خطر ناک دشمن ہی کیوں نہ راہ میں بیٹھے ہوں۔“

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *