سلطانا کی موت کے بعد انگریز اسکے بیٹے کو انگلینڈ کیوں لے گئے تھے ؟ ایک حیران کن سچی کہانی

لاہور (ویب ڈیسک) امیروں کا مال لوٹنا اور غریبوں میں تقسیم کرنے کا ذکر ہو تو 14ویں صدی کا ایک کردار ‘رابن ہڈ’ یاد آتا ہے جو اپنے ساتھیوں سمیت برطانوی کاﺅنٹی ناٹنگھم شائر میں شیروڈ کے جنگلات میں رہتا تھا۔وہ ایک عام شہری تھا لیکن ناٹنگھم کے بدقماش شیرف نے اس کی زمین چھین لی تھی

نامور صحافی ، مضمون نگار اور محقق عقیل عباس جعفری بی بی سی کے لیے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ لوٹ مار کرنے لگا تھا۔اس کے بارے میں کئی ناول لکھے گئے اور بہت سے فلمیں بنیں مگر پھر بھی اس کے بارے میں یہ بحث موجود ہے کہ وہ حقیقی زندگی میں وجود رکھتا بھی تھا یا نہیں۔تاہم ایسا ہی ایک کردار ہندوستان میں بھی گزرا ہے جو روایت کے مطابق امیروں کو لوٹتا تھا اور غریبوں کی مدد کرتا تھا۔ یہ کردار تھا سلطانا (یا سلطانہ) جسے 96 سال پہلے آج ہی کے دن 7 جولائی 1924 کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تھا۔سلطانا کے عقیدے کے متعلق کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔ بیشتر لوگوں کے نزدیک وہ مسلمان تھا جبکہ چند مؤرخین نے اسے ہندو عقیدے کا پیرو کار بتایا ہے کیوں کہ وہ بھاتو قوم سے تعلق رکھتا تھا جو عقیدے کے لحاظ سے ہندو تھی۔سلطانا اور اس کے گروہ کے لوگ ضلع مراد آباد کے رہنے والے تھے اور سب کے سب جرائم پیشہ تھے۔ سلطانا اور اس کے گروہ کے افراد مختلف جرائم میں سزا کے طور پر یو پی کے علاقے نجیب آباد میں پتھر گڑھ کے قلعے میں قید کیے گئے تھے مگر آہستہ آہستہ یہ افراد قید سے فرار ہونے لگے اور انھوں نے بھاتو قوم ہی کے ایک شخص بالم کند کی قیادت میں چوری چکاری کی وارداتیں شروع کر دیں۔بالم کند ایک دن اپنے زعم میں مالوف خان نامی ایک بہادر پٹھان سے الجھ بیٹھا

اور زندگی سے گیا جس کے بعد اس گروہ کی قیادت سلطانا کے ہاتھ میں آگئی۔سلطانا ابتدا میں چھوٹی موٹی چوری چکاری کرتا تھا۔ اردو کے پہلے جاسوسی ناول نگار اور اپنے زمانے کے مشہور پولیس آفیسر ظفر عمر اسے ایک مرتبہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس پر انھیں پانچ ہزار روپے کا انعام ملا۔ظفر عمر کی صاحبزادی حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے اپنی کتاب ‘نایاب ہیں ہم’ میں لکھا ہے کہ ظفر عمر نے سلطانا کو ایک دوبدو مقابلے میں گرفتار کیا تھا۔اس وقت سلطانا پر سوائے چوری چکاری کے کوئی سنگین الزام نہ تھا اس لیے اسے محض چار سال کی قید بامشقت سزا سنائی گئی۔ ظفر عمر نے اس کی گرفتار پر ملنے والی رقم اپنے سپاہیوں اور علاقے کے لوگوں میں تقسیم کر دی تھی۔ بعدازاں ظفر عمر نے اردو میں کئی جاسوسی ناول تحریر کیے جن میں پہلا ناول ‘نیلی چھتری’ تھا اور اس کی کہانی کا محور سلطانا ہی تھا۔ رہائی کے بعد سلطانا نے اپنے گروہ کو ازسرنو منظم کیا۔ اس نے نجیب آباد اور ساہن پور کے سرکردہ لوگوں سے رابطے استوار کیے اور اپنے قابل اعتماد مخبروں کا جال بچھا کر وارداتیں شروع کر دیں ۔ اسے اپنے مخبروں کے ذریعے مالدار آسامیوں کی خبر ملتی۔سلطانا ہر واردات کی منصوبہ بندی بڑی احتیاط کے ساتھ کرتا اور ہمیشہ کامیاب لوٹتا۔ اپنے زمانے کے مشہور شکاری جِم کاربٹ نے بھی اپنی کئی تحریروں میں سلطانا کا ذکر کیا ہے۔ ظفر عمر کے مطابق سلطانا بڑے نڈر طریقے سے واردات ڈالتا تھا اور ہمیشہ پہلے سے لوگوں کو مطلع کر دیتا تھا کہ مابدولت تشریف لانے والے ہیں۔

واردات کے دوران وہ جسمانی نقصان پہنچانے سے حتیٰ المقدور گریز کرتا لیکن اگر کوئی شکار مزاحمت کرتا اور اسے یا اس کے ساتھیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا تو وہ حد سے گزرنے سے دریغ نہ کرتا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ غریب عوام اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگتے اور وہ بھی جس علاقے سے مال لوٹتا وہیں کے ضرورت مندوں میں تقسیم کروا دیتا۔سلطانا کی وارداتوں اور داد کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا، مگر انگریزوں کی حکومت تھی اور وہ یہ صورتحال زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ پہلے تو انھوں نے ہندوستانی پولیس کے ذریعے سلطانا کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر سلطانا کے مخبروں اور غریب دیہاتیوں کی مدد کے باعث وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔بالآخر انگریزوں نے سلطانا کی گرفتاری کے لیے برطانیہ سے فریڈی ینگ نامی ایک تجربہ کار انگریز پولیس افسر کو انڈیا بلانے کا فیصلہ کیا۔ فریڈی ینگ نے ہندوستان پہنچ کر سلطان کی تمام وارداتوں کا تفصیلی مطالعہ کیا اور ان واقعات کی تفصیل معلوم کی جب سلطانا اور اس کے گروہ کے افراد پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے صاف بچ نکلے تھے۔فریڈی ینگ کو یہ نتیجہ نکالنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ سلطانا کی کامیابی کا راز اس کے مخبروں کا جال ہے جو محکمہ پولیس تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ یہ بھی جان گیا کہ منوہر لال نامی ایک پولیس افسر سلطانا کا خاص آدمی ہے جو سلطانا کی گرفتاری کی ہر کوشش کی خبر اس تک پہنچا دیتا ہے اور اس سے قبل کہ پولیس سلطانا کے ٹھکانے تک پہنچتے وہ اپنے بچاﺅ کی تدبیر کر لیتا ہے۔فریڈی ینگ نے

سلطانا کو گرفتار کرنے کے لیے بڑی ذہانت سے منصوبہ سازی کی۔ سب سے پہلے تو اس نے منوہر لال کا تبادلہ ایک دور دراز کے علاقے میں کر دیا، پھر نجیب آباد کے عمائدین کی مدد سے سلطانا کے ایک قابل اعتماد شخص منشی عبدالرزاق کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا۔ سلطانا منشی عبدالرزاق پر حد سے زیادہ بھروسہ کرتا تھا۔سلطانا کی جائے پناہ نجیب آباد کے نواح میں واقع جنگل تھا جسے کجلی بن کہا جاتا تھا۔ یہ جنگل انتہائی گھنا اور درندوں سے بھرا ہوا تھا مگر سلطانا اس جنگل کے چپے چپے سے واقف تھا۔ اس کی کمین گاہ جنگل کے ایسے گھنے علاقے میں تھی جہاں دن کے اوقات میں بھی سورج کی روشنی نہیں پہنچتی تھی۔ سلطانا بھیس بدلنے کا بھی ماہر تھا اور اس کے چھریرے بدن کی وجہ سے اسے دیکھنے والا کوئی شخص بھی نہیں جان پاتا تھا کہ یہ سلطانا ہوسکتا ہے۔فریڈی ینگ نے منشی عبدالرزاق کی اطلاعات کی بنیاد پر سلطانا کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا۔ منشی عبدالرزاق ایک جانب سلطانا سے رابطے میں تھا اور دوسری طرف اس کی نقل و حرکت کی اطلاع فریڈی ینگ تک پہنچا رہا تھا۔ایک دن منشی نے سلطانا کو ایک ایسے مقام پر بلایا جہاں پولیس پہلے سے ہی چھپی ہوئی تھی۔ سلطانا جونہی منشی کے بچھائے ہوئے جال تک پہنچا تو سیموئل پیرس نامی ایک انگریز افسر نے اسے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قابو کر لیا۔ سلطانا نے پہلے مزاحمت کرنی چاہی مگر پولیس اس سے ہتھیار چھیننے میں کامیاب ہو چکی تھی ۔

اب اس نے بھاگنا چاہا مگر ایک کانسٹیبل نے اس کے پیروں پر بٹ رسید کرکے گرا دیا اور یوں سلطانا گرفتار ہو گیا۔ اس کام کی نگرانی فریڈی ینگ کر رہے تھے جنھیں اس کارنامے کے بعد ترقی دے کر بھوپال کا آئی جی قید خانہ جات بنا دیا گیا۔فریڈی ینگ سلطانا کو گرفتار کر کے آگرہ قید خانے لے آئے جہاں اس پر مقدمہ چلا اور سلطانا سمیت 13 افراد کو تختہ دار پر پہنچانے کی سزا سنا دی گئی ۔ اس کے ساتھ ہی سلطانا کے بہت سے ساتھیوں کو عمر قید اور کالا پانی کی سزا بھی سنائی گئی۔ سات جولائی 1924 کو سلطانا کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا مگر امرا پر اس کا خوف اور عوام میں اس کی داد کے چرچے ایک عرصہ تک جاری رہے۔سلطانا انگریزوں کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ کہتے ہیں اسی وجہ سے وہ اپنے کتے کو رائے بہادر کہہ کر بلاتا تھا۔ یہ ایک اعزازی خطاب تھا جو انگریز سرکار کی جانب سے ان کے وفادار ہندوستانیوں کو دیا جاتا تھا۔سلطانا کے گھوڑے کا نام چیتک تھا۔ جم کاربٹ نے لکھا ہے کہ جس زمانے میں سلطانا پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا اس کی دوستی فریڈی ینگ سے ہوگئی۔ فریڈی ینگ جو سلطانا کی گرفتاری کا باعث بنا تھا، سلطانا کے واقعات سے اتنا متاثر ہوگیا کہ اس نے سلطانا کو معافی کی درخواست تیار کرنے میں مدد دی مگر یہ درخواست مسترد ہوگئی۔سلطانا نے فریڈی ینگ سے درخواست کی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے سات سالہ بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوائی جائے۔ فریڈی ینگ نے سلطانا کی خواہش کا احترام کیا اور اس کی موت کے بعد ان کے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ بھیج دیا اور بعدازاں وہ انڈیا واپس آیا اور آئی سی ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد محکمہ پولیس کا اعلیٰ افسر بنا، جہاں سے وہ انسپکٹر جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *