جس کا کھاتا ہوں۔۔۔
حضرت لقمان کسی رئیس کے غلام تھے ، اور اسکی بہت خدمت کیا کرتے تھے ، یہ رئیس ان کی خدمت گزاری ، دانائی اور ایمانداری سے بہت متاثر تھا انکو بہت عزت دیتا اور بہت محبت کرتا تھا ، تاجر کا معمول تھا کہ جب بھی دستر خوان پر بیٹھتا تو حضرت لقمان کو بھی اپنے ساتھ بٹھاتا اور اپنے ہاتھ سے کھانا پیش کرتا ، ایک دن رئیس نے کہیں سے خربوزہ منگوایا اور اپنے ہاتھ سے ایک قاش کاٹ کر حضرت کو پیش کی ، حضرت نے وہ قاش کھائ ی تو رئیس نے پوچھا کہ کیسا ہے
، حضرت نے جواب دیا کہ الحمدللہ بہت اچھا ہے ۔ آپکی دی ہوئی چیز پھیکی کیسے ہو سکتی ، رئیس بہت خوش ہوا اور ایک قاش اور کاٹ کر آپ کی خدمت میں پیش کی، آپ نے وہ بھی نوش فرما لی ، اسی طرح رئیس قاشیں کاٹتا رہا اور آپ کو پیش کرتا رہا اور آپ کھاتے رہے اور تعریف کرتے رہے ، جب آخری قاش بچی تو رئیس کے دل میں آیا کہ اتنا میٹھا خربوزہ مجھے بھی چکھنا چاہیے جیسے ہی اس نے قاش منہ میں رکھی فورا” تھوک دی ، خربوزہ تو انتہائی کڑوا تھا ، رئیس بڑا حیران ہو ا اور اس نے حضرت لقمان سے پوچھا کہ حیرت ہے آپ اتنا کڑوا خربوزہ میٹھا کہہ کر کھاتے رہے ، کیا وجہ تھی کہ تم نے مجھے بتایا نہیں ، حضرت لقمان نے سر جھکا لیا اور آہستہ آواز میں بولے آقا میں نے آپ کے ہاتھوں سے دنیا کی شاندار نعمتیں کھائی ہیں یہ پہلی نعمت تھی جو ذرا سی کڑوی تھی ، میری غیرت نے گوارہ نہیں کیا کہ ایک ایسے شخص سے شکایت کروں جس نے ہمیشہ مجھے پہلے کھلایا اور بہت اچھا کھلایا ۔ آقا میں آپ کے مہربان ہاتھوں سے زہر تک کھا سکتا ہوں تو یہ کڑوا خربوزہ کیا چیز ہے ، یہ سن کر رئیس کی آنکھوں میں آنسو آگئے مجھے بھی یہ واقعہ سوچ کر رونا آ جاتا ہے کہ ہم ذرا سی تکلیف پر اللہ سے شکوہ کر دیتے ہیں کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ، کبھی یہ نہیں سوچا کہ اس مالک کی ہزار ہا نعمتیں استعمال کر رہے ہیں ، ہوا ، پانی ، روشنی ، پھل ، غذا اور ان کے علاوہ کتنی نعمتیں ہیں جو مسلسل استعمال کرتے ہیں لیکن جب کبھی ذرا سی تکلیف آجائے ، مشقت آ جائے ، بیماری آجائے ، کوئی محرومی آجائے تو فورا” شکوہ کر دیتے ہیں کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ، غیرت کا تقاضہ تو یہی ہے نا کہ جس مالک کی اتنی نعمتیں استعمال کرتے ہیں اس کی طرف سے آنے والی تھوڑی سی مصیبت میں بھی ناشکری مت کریں اور ہر حال میں اس کا شکر ادا کریں
Leave a Reply