محنت میں عظمت
بے شک رزق اللہ تعالی دیتا ہے اور اللہ تعالی نے انسان کے ساتھ وعدہ کیا ہے۔ کہ رزق میں دوں گا۔ لیکن اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور بھی دیا ہے۔ وہ اس لئے تاکہ وہ اپنا حال خود کما سکے آج ہم آپ کو ایک ایسی ہی سبق آموز قصہ سناتے ہیں۔ کسی گاؤں میں ایک نو جوان رہتا تھا پڑھائی لکھائی جب ختم ہوئی تو والدین نے نوکری کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
کئی مہینے وہ نوکری کی تلاش میں پھرتا رہا لیکن کہیں نوکری نہ ملی ایک دن تھک ہار کر خود سے بولا، رزق تو اللہ کی ذات نے دینا ہے۔ اب میں نوکری کی تلاش میں نہیں پھروں گا بلکہ سکون سے زندگی گزاروں گا۔۔ اللہ رازق ہے تو گھر بیٹھے ہی رزق دے گا.اسیسوچ کے ساتھ یہ جوان صبح کی سیر کے لئے نکلا سیر کے بعد گاؤں کے قریب سے گزرنے والی نہر کنارے جا کر بیٹھ گیا.ابھی بیٹھے پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے کہ دیکھا ایک پتہ نہر میں نیچے کی طرف بہتا ہوا آ رہا ہے۔۔ چھلانگ لگا کر پتہ پکڑا تو یہ کیا دیکھتا ہے کہ پتے پر دو نان اور ان پر حلوہ پڑا تھا.واہ خدایا! واقعی رزق تو کھانے والے تک خود پہنچتا ہے۔۔ حلوہ کھایا بہت لذیذ تھا. پیٹ بھر کر واپس گھر آ گیا.ظہر کے بعد پھر نہر کنارے چلا گیا. ایک بار پھر حلوہ اور نان پتے پر آتے نظر آئے. اٹھائے اور کھا ليے.مغرب کی نماز کے بعد پھر نہر کنارے چلا گیا. اس بار بھی وہی ہوا.واہ! رات کے کھانے کا انتظام بھی ہو گیا.اب روزانہ فجر، ظہر اور مغرب کی نماز کے بعد نہر کنارے جا کر بیٹھ جاتا اور بلا ناغہ نان اور حلوہ مل جاتے۔
یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔۔ایک دن خیال آیا کہ دیکھوں کہ اللہ تعالٰی کس طرح یہ نان اور حلوہ بھجواتا ہے. اسی سوچ میں صبح کی نماز کے بعد نہر کی اوپری طرف چل پڑا. کچھ کلومیٹر ہی گیا ہو گا کہ دیکھا، ایک بابا جی ہیں جو نان اور حلوہ لئےنہر کنارے بیٹھے ہیں۔۔قریب جا کر دیکھا۔۔ تو بابا جی نان کے اندر حلوہ رکھتے اور پھر اس گرم گرم حلوے سے اپنی ٹانگ پر نکلے ایک پھوڑے کو ٹکور کرتے، پھر ایک پتے پر نان اور حلوہ رکھ کر نہر میں بہا دیتے.جوان کا دل ایک دم خراب ہونا شروع ہو گیا۔ ابکائیاں آنے لگیں کیا میں اتنے دنوں سے یہ حلوہ اور نان کھا رہا تھا؟بابا جی سے پوچھا یہ ماجرا کیا ہے؟بابا جی بولے:کئی دنوں سے یہ پھوڑا نکلا ہوا تھا. جس کی وجہ سے بہت تکلیف تھی۔ حکیم کے پاس گیا تو حکیم نے مشورہ دیا کہ روزانہ دن میں تیں بار سوجی کے حلوے کو نان پر رکھ کر اس کی ٹکور کروں، سو میں فجر، ظہر اور مغرب کے بعد ادھر آ جاتا ہوں۔۔ نان اور حلوے کی ٹکور کے بعد نان اور حلوے کو پتے پر رکھ کر نہر میں بہا دیتا ہوں تاکہ خراب ہونے کی بجائے چرند پرند اور مچھلیاں ہی کھا لیں. بے شک اللہ رازق ہے۔ رزق اللہ نے ہی دینا ہے، محنت اور کاہلی کے درمیان پھل کا فرق ہے.جو محنت کرتے ہیں انھیں پاک اور صاف رزق ملتا ہے۔۔ جو کاہلی میں وقت گزارتے ہیں اور حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، رزق تو انہیں بھی ملتا ہے مگر وہ رزق جس میں کراہت اور گندگی ہو.دنیا امتحان گاہ ہے۔ جہان رحمت اور محنت سے سفر ہوتا ہے۔ دوستو کچھ قصے عارضی ہوتے ہیں لیکن اس کی پیچھے ایک بڑا سبق ہمیں ملتا ہے۔ اور اسی سبق کے لیے عرضی قصے بنائے جاتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آج کی تحریر آپ کو ضرور پسند آئے ہوگی۔
Leave a Reply