کچھوے کی ہوشیاری
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کے تمام جانور مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کی بولی سمجھتے تھے۔ کچھوے اور گلہری میں گہری دوستی تھی۔ جنگل کے دوسرے جانوروں کو ان کی دوستی بہت عجیب لگتی تھی، کیوں کہ دونوں میں کوئی بات مشترکہ نہیں تھی۔ لیکن دونوں جانتے تھے کہ وہ ایک ہی جیسے ہیں اور ان کی عادات بھی ملتی جلتی ہیں۔
دونوں کسی بھی کام میں جلدی نہیں کرتے، دونوں کو بیر بہت پسند ہیں۔ درخت سے بیر توڑ کر کھانا ان کا معمول ہے۔ گلہری درخت پر چڑھتی اور عمدہ پکے ہوئے بیر کُتر کُتر کر کھانے لگتی، پھر جب اس کا پیٹ بھر جاتا ، تو وہ بیر شاخوں سے توڑ کر نیچے گرانا شروع کردیتی، اس طرح کچھوا جو نیچے کھڑا ہوتا، وہ بھی ان بیروں کو کھانا شروع کردیتا۔ایک روز جب کچھوا بیر کھا رہا تھا تو وہاں سے بھیڑے کا گزر ہوا، اس نے کچھوے کو دیکھا تو بنا محنت کے بیر کھانے کا ارادہ کر لیا۔ وہ دبے قدموں کچھوے کی پشت پر بیٹھ گیا، جب گلہری اوپر سے بیر گراتی تو کچھوا اپنا منہ کھول کر آنکھیں بند کرلیتا ، اس سے پہلے کہ بیر کچھوے کے منہ میں جاتا، بھیڑیا اُچھل کر انہیں منہ میں دبوچ لیتا، جب کافی دیر تک کچھوے کو بیر نہیں ملے تو وہ گلہری پر خفا ہونے لگا۔
گلہری جو اوپر سے بھیڑے کی کارستانی دیکھ رہی تھی اس نے بھیڑیے کو سبق سکھانے کے لئے ایک بہت بڑا بیر توڑا اور نیچے کی طرف گرا دیا، بھیڑیا پہلے کی طرح اچھلا اور بیر سیدھا اس کے حلق میں جا کر پھنس گیا۔ بہت کوششوں کے بعد بھی وہ بیر حلق سے نہیں نکل سکا اور دم گھوٹنے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی۔ اتنے میں کچھوے نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو بھیڑے کو مردہ پا کر سمجھ گیا کہ بیر کہاں جا رہے تھے۔جنگل کا دستور تھا کہ فاتح مفتوح کے جسم کا کوئی بھی حصہ کاٹ لیا کرتا تھا، چنانچہ کچھوا بھیڑیے کے دونوں کان کاٹ کر گھر لے آیا اور اسے چمچ کے طور پر استعمال کرنے لگا۔ اب اگر اسے کوئی چیز کھانی ہوتی تو وہ ان کا استعمال کرتا۔
جنگل کے تمام جانور بہت مہمان نواز اور مہذب تھے۔ وہ اپنے گھروں میں ایک ہانڈی میں سوپ پکاتے رہتے اور جب کوئی مہمان ان کے گھر آتا تو وہ اس کی تواضع کارن سوپ سے کرتے، کچھوا اپنے دوستوں کے گھر جاتا اور بھیڑیے کے کان سے بنے چمچ سے سوپ پینا شروع کردیتا، سب اس سے بہت مرغوب ہوتے کہ وہ کتنا بڑا فاتح ہے، اس نے بھیڑیے کا شکار کیا۔جب جنگل کے دوسرے بھیڑیوں کو بھی معلوم ہوا تو وہ طیش میں آگئے۔ انہوں نے تمام بھیڑیوں کا اجلاس بلایا اور طے کیا کہ وہ لکڑیاں جمع کرکے خوب آگ دہکائیں گے اور کچھوے کو اس میں ڈال دیں گے، اگر کچھوا واقعی فاتح ہے تو وہ اس آگ سے نکل کر دکھائے، جب کچھوے کویہ معلوم ہوا تو
اس نے بھیڑیوں سے کہا، ’’ٹھیک ہے، مجھے تم اس آگ میں ڈال دو، اس سے قبل شعلے مجھے جھلسائیں میں اپنے چوڑے پاؤں استعمال کرکے اس میں سے نکل آؤں گا۔تمام بھیڑیے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے، اتنے میں ایک بوڑھا اور دانشور بھیڑیا کہنے لگا، ’’ہم کچھوے کو آگ میں نہیں ڈالیں گے بلکہ آگ پر چکنی مٹی کی ہانڈی چڑھائیں گے۔ پھر جب پانی کھولنے لگے گا تو کچھوے کو اس میں ڈال دیں گے‘‘۔کچھوے نے ایک بار پھر ہوشیاری دکھائی اور رضا مندی ظاہر کردی کہ، ’’اس سے پہلے پانی کھولنے لگے اور میری کھال کو نقصان پہنچائے میں اپنے فولادی پاؤں سے ہانڈی توڑ کر باہر آجاؤں گا‘‘۔بھیڑیوں کو اپنا منصوبہ ناکام ہوتا نظر آیا تو بہت مایوس ہوگئے اور سر جوڑ کر پھر صلاح مشورہ کرنے لگے۔ اب کی بار سوچا گیا کہ، ’’کچھوے کو گہرے دریا میں پھینک کر تمام بھیڑیے دریا کے کنارے کھڑے ہوجائیں۔
کچھوا جب تک ڈوب نہ جائے وہیں کھڑے رہیں‘‘۔ یہ سن کر کچھوار رونے، گڑگڑاتے ہوئے بولا، ’’مجھے دریا میں مت پھینکو میں ڈوب کر مرنا نہیں چاہتا‘‘۔ لیکن بھیڑیوں نے اسے دبوچ کر دریا میں پھینک دیا۔ پانی میں ایک چٹان تھی، جس سے کچھوے کی پیٹھ ٹکرا کر چٹخ گئی۔ کچھوے تو دریا میں ہی رہتے ہیں پانی ان کے لئے انوکھی چیز نہیں تھا، اس لیے باآسانی وہ تیرتا ہوا دوسرے کنارے تک پہنچ گیا، چوں کہ دوسرا کنارا کافی دور تھا اس لیے بھیڑے وہاں تک نہیں پہنچ سکے۔ انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ کچھوے کی جان تو بچ گئی مگر اس کی پیٹھ بُری طرح زخمی ہو گئی۔ اسے بہت افسوس ہوا، جڑی بوٹیوں سے علاج کیا مگر زخم کے نشان نہیں گئے بلکہ نسل در نسل منتقل ہوتے گئے۔ ننھے ساتھیوں آپ آج بھی یہ نشان کچھوؤں کی پیٹھ پر دیکھ سکتے ہیں۔
Leave a Reply