محبوب
ایک بادشاہ نے لیلیٰ کے بارے میں سنا کہ مجنوں اس کی محبت میں دیوانہ بن چکا ہے اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں لیلیٰ کو دیکھوں تو سہی چنانچہ جب اس نے لیلیٰ کو دیکھا تو اس کا رنگ کالا تھا اور شکل بھدی تھی‘ وہ اتنی کالی تھی کہ اس کے ماں باپ نے لیل (رات) سے مشابہت کی وجہ سے اس کو (کالی) کا نام دیا‘ لیلیٰ کے بارے میں بادشاہ کا تصور یہ تھا کہ وہ بڑی نازنین اور پری چہرہ ہو گی مگر جب اس نے لیلیٰ کو دیکھا تو اسے کہاتجھ
تو اسے کہاتجھ میں تو کوئی خاص بات نہیں پھر مجنوں تجھ پر کیوں مرتا ہے‘ جب لیلیٰ نےبادشاہ کے یہ الفاظ سنے تو اس نے عرض کیا ” تیرے پاس مجنوں کی آنکھ نہیں ہے اگر مجنوں کی آنکھ ہوتی تو تجھے دنیا میں میرے جیسا کوئی خوبصورت نظر نہ آ تا‘
مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک صحرا نورد نے ایک بار مجنوں کو دیکھا‘ غم کے بیاباں میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا‘ ریت کو اس نے کاغذ بنایا ہوا تھا اور اپنی انگلیوں کو قلم اور کسی کو کوئی خط لکھ رہا تھا‘ اس نے پوچھا‘ اے مجنوں تو کیا لکھ رہا ہے؟ تو کس کے نام کا خط لکھ رہا ہے؟
مجنوں نے کہا کہ لیلیٰ کے نام کی مشق کر رہا ہوں‘ اس کے نام کو لکھ کر میں اپنے آپ کو تسلی دے رہا ہوں‘ مولانا رومیؒ لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ جب دنیا کے محبوب کا نام لکھنے اور بولنے سے سکون ملتا ہے تو محبوب حقیقی کے ذکر و نام لینے پر کس قدر سکون ملتاہو گا۔
آج کی بہترین پوسٹس پڑھنے کے لئے نیچے سکرول کریں۔
Leave a Reply