اندھے نے اصلی اور نقلی ہیرے پہچان کر بادشاہ کو حیران کر دیا!!!

کردار کی محنت کرنے والوں کی زندگی میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ کردار کی ایک غلطی ساری زندگی کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے اسی لیے کردار کی محنت کرنے والے دُنیا کی تنگ نظری اور طنز اور طعنوں کے جواب میں کبھی برداشت کا دامن نہیں چھوڑتے اور آج کی اس کہانی کا درس بھی یہی ہے۔

ایک بادشاہ کو اُس کے وزیر نے ہیرے جواہرات سے بھرا ایک بڑا تھیلا دیا اور بولا ” بادشاہ سلامت اس میں اصلی ہیروں کیساتھ نقلی ہیرے بھی شامل ہیں جو بلکل اصلی جیسے نظر آتے ہیں آپ ان نقلی ہیروں کو اصلی ہیروں سے علیحدہ کروا لیجیے تو یہ سارے ہیرے آپ کے ہو جائیں گے”۔

بادشاہ نے اپنی سلطنت میں اعلان کروایا ” جو جوہری نقلی ہیروں کو پہچان کر ٹھیک سے علیحدہ کردے گا اُسے مُنہ مانگا انعام دیا جائے گا لیکن اگر کوئی ناکام ہوگیا تو اُسے ہمیشہ کے لیے زندان میں پھینک دیا جائے گا”۔

کئی جوہری اپنے علم کو آزمانے بادشاہ کے محل پہنچے مگر نقلی ہیرے اس قدر حقیقت کے قریب تھے کہ جوہری بھی اُن سے دھوکا کھا گئے اور کئی جوہریوں کو زندان میں پھینک دیا گیا، جوہریوں کی اس سزا کو دیکھ کر مُلک کے باقی جوہری بادشاہ کے اس چیلنج سے خوفزدہ ہوگئے اور مُنہ مانگے انعام کی لالچ سے پیچھے ہٹ گئے۔

بادشاہ کی طرف سے سارے مُلک میں منادی کروائی جارہی تھی کہ جو اصلی ہیرے پہچان کر علیحدہ کرے گا اُسے منہ مانگا انعام ملے گا، بادشاہ کی منادی ایک عُمر رسیدہ اندھے نے سُنی تو وہ بادشاہ کے محل میں حاضر ہُوا اور اُس نے اصلی ہیروں کو پہچاننے کے لیے بادشاہ سے اجازت چاہی۔

بادشاہ نے عُمر رسیدہ اندھے سے کہا ” کیوں اپنی جان کے دُشمن بنتے ہو تُم سے پہلے آنکھوں والے کئی قابل جوہری اس مقصد میں ناکام ہوکر زندان میں سڑ رہے ہیں بہتر ہے کہ تُم اپنے اس قصد سے باز آجاؤ”، اندھے نے جواب دیا ” بادشاہ سلامت میں اگر اصلی ہیرے نہ پہچان سکا تو میں آپکی سزا کے لیے تیار ہُوں”۔

بادشاہ نے اندھے کو ہیرے پہچاننے کی اجازت دی تو اندھا ہیروں کا تھیلا لیکر ایک کمرے میں چلا گیا اور کُچھ دیر کے بعد اصلی اور نقلی ہیرے الگ کر کے لے آیا، بادشاہ نے ہیرے دینے والے وزیر سے کہا “دیکھو کیا یہ اندھا اپنے مقصد میں کامیاب ہُوا؟”۔

وزیر نے اچھی طرح ہیروں کا معائنہ کیا اور بادشاہ سے بولا ” عالی جان یہ اندھا تمام نقلی ہیروں کو اصلی ہیروں سے علیحدہ کر چُکا ہے اور حیرت انگیز طور پر کامیاب ہو گیا ہے”۔

بادشاہ نے اندھے سے پُوچھا بغیر آنکھوں کے تُم نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟ اندھا بولا ” یہ کام بہت آسان تھا جناب میں نے ہیروں کی تھیلی سے تمام اصلی اور نقلی ہیرے آگ کے قریب رکھ دئیے پھر جو اصلی تھی وہ آگ کی حدت سے گرم نہیں ہُوئے اور جو نقلی تھے وہ گرم ہوگئے تو میں نے اُنہیں علیحدہ کر دیا”۔

کردار کی محنت کرنے والوں کا حساب بھی ان ہیروں جیسا ہی ہے کیونکہ جو دُنیا کی مشکلات اور تلخیوں کو برداشت کر گیا مصائب کو سہہ گیا اور دلشکنی کرنے والوں کی گفتگو پر اخلاق سے نہ گرا وہ اصلی ہیرا ہے اور جو ان تلخیوں پر اپنا توازن کھو بیٹھا وہ نقلی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *