خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے گھر ایک روز ایک میٹھی چیز پکائی
نوجوان قلم کار سیف اللہ اعوان اپنی فکر انگیز تحریروں اور اچھوتے خیالات کے باعث عصر حاضر کے ابھرتے ہوئے لکھاری کے طور پر سامنے آئے ہیں،اپنے گزشتہ کالم میں انھوںنے ایک پرائیویٹ ٹیچر کی زندگی کی مشکلات اور قبر کی تنگی سے غفلت پر لوگوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی تھی ۔ اس بار اپنے کالم میں انھوںنے وقت کے ضیاع کا باعث بننے والی سرگرمیوں اور ان کے روز آخرت کو ہونے والے حساب کےبارے میں شعور بیدار کرنے کا بیڑہ اٹھایاہے۔ ” صرف دولت اور جسم کا نہیں وقت کا بھی حساب ہو گا” کے عنوان سے
کے عنوان سے اپنے نئے کالم میں وہ لکھتے ہیں ” خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا ایک واقعہ سنا جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار ان کے گھر میں کوئی میٹھی چیز بنی ۔ انھوںنے پوچھا کہ یہ میٹھا بنانے کےلیے راشن کہاں سے آیا تھا ۔ اہل خانہ نے جواب دیا کہ بیت المال سے جو آپ کے حصے کا راشن آتا تھا اسی میں سے روزانہ مٹھی بھر بچا کر آج کچھ میٹھا بنا لیا ۔
جس پر خلیفہ وقت نے بیت المال کے منتظمین کو پیغام بھجوادیا کہ میرے حصے کے راشن میں سے روزانہ مٹھی بھر راشن کم کردو کیونکہ میرے اہل خانہ کا اس پر بھی گزارا ہوسکتا ہے ۔ واقعہ سنتے ہی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ جسم لرز اٹھا ۔ ایک مزیدار واقعے کو سن کر واہ واہ سبحان اللہ کہنے کی بجائے اندر ہی سے ضمیر کی طرح کی کوئی چیز پھڑک اٹھی۔ پہلے خیال آیا ہمارے حکمران تو اربوں کھربوں جمع کرکے اور اپنی سات نسلوں کی عیش و عشرت کا بندو بست کرنے کے بعد بھی مضطرب ہیں کہ ان کا اقتدار ختم ہو گیا ۔
ان کی باری سمٹ گئی۔ ان کی سیاست کی بساط لپیٹ دی گئی ۔ اور کجا وہ اللہ کا نیک بندہ جو مٹھی بھر راشن کو بچا کررکھنے پر بھی یوم آخرت کے حساب کے خو ف سے کانپ اٹھا۔ لیکن پھریہ سو چ غالب آئی کہ کم بخت حکمرانوں کو ہی کوسنے اور کوستے رہنے سے اپنے آپ کو بری الذمہ اور دودھ سے دھلا ہوا سمجھ بیٹھنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ کچن اور باتھ روم کے نل سے پانی بہنے سے لے کر دولت کو پانی کی طرح بہانے تک کتنے ہی معاملات ہیں جن میں ہم لوگ بحیثیت معاشرہ حاتم طائی کے باپ بنے ہوئے ہیں۔
ایک مٹھی راشن کی بچت کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے والے خلیفہ عمر بن عبد العزیز ؒ تو مسلمانوں کے امیر اور جلیل القدر ہستی تھے ۔ یہ ڈر یہ زہد و تقویٰ اللہ اپنے محبوب بندوں کو ہی عطا کیا کرتا ہے ۔میں اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں کہ کسی حساب اور پوچھ تاچھ کا ڈر نہیں۔ خیالات کا تانتا بندھتا چلا گیا ۔ سوچ مزید گہری ہوتی چلی گئی ۔ اپنے سکول ،جس میں میں انگریزی پڑھایا کرتا تھا ، کے نوجوان کوارڈینٹر کا واقعہ یاد آگیا جو عمر میں مجھ سے بھی دو سال چھوٹا تھالیکن کمال درجے کی ذہانت اور بصیرت رکھنے والا تھا۔ ایک روز ہم سٹا ف روم میں بیٹھے ہوئے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر اپنی تجزیہ کاریجھاڑ رہے تھے کہ اچانک وہ سٹاف روم میں داخل ہو گیا ۔ اس نے گفتگو سے بھانپ لیا کہ کو ن سا موضوع زیر بحث ہے۔ کہنے لگا ، میں سوچ رہا ہوں کہ وہ لیسن پلان جو آپ کو گرمیوں کی چھٹیوں میں بنانے کےلئے دیے جا رہے ہیں وہ ابھی آپ کے حوالے کردیے جائیں اور ان چھٹیوں میں آپ کے ذمے کوئی اور کام لگایا جائے۔
کام کے دہرے بوجھ کا خیال آتے ہی اساتذہ چلا اٹھے۔ لیکن جنا ب کیوں۔ کس بات کی سز ا دے رہے ہیں آپ ہم بے چارے مظلوموں کو ۔ تو وہ نوجوان کوارڈینیٹر جھٹ سے بولا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ میرے اساتذہ کے پاس وقت کی فراوانی ہے ۔اس لئے انھیں ایک تدریسی ماحول میں بھی سیاست کے موضوع پر اظہار خیال کا موقع ملا ہے ۔ یہ موقع دینا شاید میری ہی غلطی ہے اور میں نے اسے سدھارنے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ آپ لوگ چھٹیوں کا کام ابھی کریں گے ۔ اور چھٹیوں میں کوئی اور پراجیکٹ آپ کے حوالے کیا جائے گا ۔ اور وہی ہوا ۔ لیکن آج اس کا خیال آنے کا فائدہ ایک سبق ملنے کی صورت میں ہوا ۔
اور وہ سبق یہ ہے کہ اگر ایک سکول یا ادارہ یہ برداشت نہیں کرتا کہ ہم اس کا دیا ہوا وقت کسی اور سرگرمی میں ضائع کریں تو جس ذات نے ہمیں جینے کی مہلت دی وہ کیونکر زندگی میں فضولیات پر گزارے گئے وقت کی بابت سوا ل نہیں کرے گا۔خدا غارت کرے ان فلموں کے پروڈیوسروں کو۔ ایک عا م سی بھارتی فلم ہی لے لیجئے ۔ اس کا دورانیہ سوا دو سے ڈھائی گھنٹے ہوتا ہے۔ یہ نتیجہ بعد میں نکالاجاتا ہے کہ فلم دلچسپ تھی یا بورنگ ۔ لیکن یہ پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک فلم ہی ہے ۔ایک جھوٹی کہانی۔ اس میں کئی خلاف حقیقت تصورات بھی ہیں ۔کئی ناممکن باتیں بھی ہیں۔ کئی ناقابل عمل اسباق بھی ہیں۔ کئی غیر اخلاقی ، کفریہ اور مشرکانہ مناظر بھی ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ سو چ کرانھیں دیکھا جاتا ہے کہ آخر فلم ہی تو ہے۔ فلم کو فلم ہی ہونا چاہیے ۔ جھٹ سے خیال آیا کہ ایک فلم میں دو ڈھائی گھنٹے گزار دینے سے متعلق کیا سوال نہیںہوگا کہ اگر اتنی فرصت میسر تھی تو قرآن کریم کے دو پارے ہی تلاوت کرلیتے ۔
اگر دو نہیں تو کم از کم ترجمے اور تفسیر کے ساتھ آدھا پارہ ہی پڑھا جاسکتا تھا ۔ احادیث مبارکہ کے کسی مجموعے کا جامع انداز میں مطالعہ ہوسکتا تھا۔ ممکن ہے فلم کے دوران حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کی آواز بھی سنائی دی ۔جس کےلئے ہم نے زیادہ سے زیادہ والیم کو بند کر دیا ۔ آواز تھمی تو والیم پھر کھول دیا گیا صلوۃ اورفلاح کی جانب تو گئے ہی نہیں۔ استغفراللہ ۔پھر سوچ میں مزید وسعت آئی ۔ خلیفہ کی کفایت شعاری کے واقعے کو بنیاد بنا کر آج کل کی شادیوں کا خیال آیا ۔ یہ باتیں سب نے سن رکھی ہیں کہ جہیز اور نمود نمائش ، رسوم و رواج پر بے جا اخراجات کا اسلام میں تصور نہیں ۔
یہ اور بات ہے کہ سوسائٹی میں ناک اونچی رکھنے کی غرض سے ان باتوں کو کوئی قابل عمل نہیں سمجھتا ۔ روپے پیسے کے اخراجات سے ہٹ کر جو مصلحت شادی سادگی سے کرنے میں سمجھ آئی وہ وقت کا ضائع ہونے سے بچاناتھا۔ خوبصورت ملبوسات اور خوشبوئوں میں نہائے ہوئے مرد اور بھڑکیلے کپڑوں اور چمکیلے میک اپ سےلتھڑی ہوئی عورتیں کیا جھٹ پٹ ہی تیار ہوجاتی ہوں گی۔ نہیں جناب گھنٹوںپارلر اور شیشوںکےسامنے گزار دیے جاتے ہیں۔ کئی بار تو دلہا اور دلہن سے زیادہ وقت تو فریقین کے رشتہ داروں کی تیاریوں میں لگ جاتا ہے۔ دلہا اور دلہن انتظار میں پڑے پڑے سوکھ جاتے ہیں اور دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ لو جی شادی ہماری ہے اور تیاریوں میں گھنٹوں یہ لوگ لگا رہے ہیں۔ لیکن اگر صرف نکاح اور ولیمے کا اسلامی تصور دیکھا جائے تو یہ سب کچھ کتنی دیر میں ہوجاتا ہو گا ۔ شاید ایک دن میں یا ایک دن کے کچھ حصے میں ۔ نہ انتظامات کی لمبی چوڑی فہرست ۔ نہ رسموں کی بکواسیات ۔ نہ مہمانوں کو لمبا عرصہ ٹھہرانے کی پریشانی نہ اس دوران ہونے والے گلوں شکووں اور ناخوشگوار واقعات کی جھنجھٹ لیکن ہم نے تو یہ سب کچھ خود شوق سے پال رکھا ہے۔
اور جواز کیا پیش کیا جاتا ہے کہ یہ خوشی روز روز تھوڑی ہی کرنی ہوتی ہے۔ شادیوں میں رسمیں نہ کی جائیں تو پھر کب کی جائیں۔سوچتے سوچتے موبائل فون بجنے لگا ۔ سکرین پر نمبر دیکھا تو ایک کنجوس ابن کنجوس دوست کا تھا جو صرف رات کو پیکج ٹائم میں کال کرتا تھا ۔ پہلے کال اٹھانے لگا پھر یکا یک ایک او ر خیال آیا تو فون کاٹ دیا۔ اور وہ خیال یہ تھا کہ ا ن موئی موبائل کمپنیوںنے کال کے پیکج رات 12سے صبح 7تک ہی کیوں متعارف کروائے۔ اللہ کے بنائےہوئے نظام میں تو یہ وقت نیند کا ہوتا ہے ۔
اس وقت جیسی اچھی نیند دن کے کسی اور حصے میں نہیں ہوسکتی۔ لیکن کیا ہے کہ صبح کی روشنی پھوٹنے تک کئی دل جلے دل کے پھپھوڑے پھوڑتے رہتے ہیں اور پھر دن ڈھلنے تک سوئے رہتے ہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں تو شب بیداری عبادتوں اور قرآن کریم کی تلاوت کےلئے ہوا کرتی تھی۔ کتنی سفاکی اور عیاری کے ساتھ سستے کے چکر میں کمپنیوں نے ہماری نوجوان نسل کو والدین کی نیند کا فائدہ اٹھانے ،رات بھر باتیں کرنے اور گناہ کےمنصوبوں کو پروان چڑھانے کا موقع عطا کیا ۔
جھٹ سے خیال آیا کہ اگر رت جگے ہی برداشت کرنے تھے تو کس کام پر کیے ذرا حساب تود و۔ میں نے سنا ہے کہ دجال کے زمانے کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کھیل تماشے بہت زیادہ ہوجائیں گے ۔ تو سپر لیگ ،چیمپئینز لیگ، پریمئیر لیگ ، ٹی ٹوئنٹی ، ٹی ٹین ، ٹیسٹ اور پتہ نہیں کیا کیا ۔یہ کھیل تماشہ ہی تو ہے ۔ جسے بڑھا دیا گیا ہے۔ کھیلنے والوں کو دفع کیجئے ۔ لاکھوں کروڑوں ڈالر کما کر گھر لے جاتے ہیں ۔مجھے اور آپ کو تھوڑا ہی دیتے ہیں۔ دیکھنے والوں کے گھنٹوں کا حساب کون دےگا۔ اس ساری گفتگو میں میرا ہر گز مطلب نہیں کہ کسی بھی کام کو زیادہ وقت نہیں دینا چاہیے ۔ اپنے پیشے ، اپنی ضرورت اور اپنے روز مرہ کے کاموں کو پوری جانفشانی اور پوری تن دہی سے سرانجام دینے کا تصور سب سے زیادہ اسلام میں ہی ہے۔ کام چوری اور حرام خوری کرکے کام سے بھاگنے کا یہ جواز ہر گز قابل قبول نہیں کہ یہ کام مقررہ وقت سے پہلے ختم ہوسکتا تھا اس لئے میں نے وقت بچالیا۔ وہ ایمانداری اور اپنے کام سے انصا ف کے زمرے میں آتا ہے۔ نوکری ہو یا کاروبار یاپھر کوئی گھریلوکام کاج ۔ اس پر صرف کیا گیا وقت ضائع شدہ نہیں کہلاتا بلکہ یہ بھی عبادت ہے۔
لیکن خدارا اپنے جسم اور دولت کی طرح اپنے وقت کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی امانت سمجھیے اور اس کا بہترین استعمال کیجئے ۔یقین مانیے دنیا میں بھی یہ بات آپ کو کامیابی اور تکریم دلاتی ہے اور آپ دیکھیں گے کہ کس طرح خود بخود روز آخرت کےلئے بھی آپ کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہوجائے گا کہ دم نکلتے وقت آپ کے منہ سے یہ بات نہیں نکلے گی کہ ہائے ری بدبختی! میں نے ایک مقصد کو پورا کرنے کا سنہری موقع لغویات ا ور فضولیات میں گزار دیا ۔ اب کسی کی کوئی سفارش میرے کام نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بامقصد اور کامیاب زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
Leave a Reply