دوست ایک ہی کافی ہوتا ہے
ایک لڑکے کے بہت زیادہ دوست تھے‘ وہ ہر وقت دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا رتا اور کام کاج نہیں کرتاتھا‘ زندگی ضائع کر رہا تھا‘ ا س والد کو اس کی بڑی فکر تھی‘ کئی بار سمجھایا لیکن فائدہ نہیں ہوا‘ ایک دن باپ نے کہا تم اپنے ہر دوست کے پاس چلو اور کہو کہ اچانک مجھے اتنی رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے‘ یہ دونوں باپ بیٹا ہر ایک کے پاس گئے‘
ہر ایک نے معذرت کی اور کوئی نہ کوئی بہانہ کیا‘ اب باپ نے کہا‘ میرا ایک ہی دوست ہے‘ اب اس کے پاس چلتے ہیں‘ تم اس کا اخلاق دیکھنا‘ باپ بیٹا دونوں اس کے گھر پہنچے‘ دروازہ کھٹکھٹایا‘ غلام باہر نکلا‘ آدمی نے کہا کہ کہو تمہارا دوست آیا ہے‘کافی دیر ہوگئی لیکن آدمی باہر ہی نہیں نکلا‘ لڑکے نے کہا ‘ابا جان میرے دوست باہر تو آئے تھے‘ملاقات تو کی تھی آپ کا دوست تو باہر آنا بھی گوارا نہیں کر رہا‘ آدمی نے کہا بیٹا تھوڑی دیر صبر کرو‘ کافی دیر کے بعد وہ آدمی باہر نکلا‘ اس کے ایک ہاتھ میں ننگی تلوار تھی‘ دوسرے ہاتھ میں ایک اشرفیوں کی تھیلی تھی‘ آدمی نے آتے ہی معذرت کی اور کہا کہ دیر اس لئے ہو گئی کہ غلام نے بتایا کہ آپ کا دوست آیا ہے اور اس کا لڑکا بھی ساتھ ہے‘ میں نے سوچا میرا دوست رات کے اس وقت کبھی میرے پاس نہیں آیا‘ آج شاید کوئی خاص کام ہے‘ اگر تو رقم کی ضرورت ہے تو گھر میں جو کچھ موجود تھا وہ میں لے کر آیا ہوں‘
اگر کسی سے لڑائی جھگڑا ہو گیا ہے تو میں تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں‘ بیٹے کو ساتھ لائے ہو اگر اس کی شادی کا ارادہ ہے تو میں اپنی بیٹی کو دلہن بنا کر آیا ہوں تم کہو تو ابھی نکاح کر دوں‘ لڑکا اس آدمی کے حسن اخلاق پر حیران رہ گیا‘ باپ نے کہا‘ دیکھا بیٹا میرا ایک ہی دوست ہے اور کام کا ہے‘ تمہارے بہت سارے دوست کسی کام کے نہیں‘ لڑکے کو بہت سمجھ آ گئی‘ اس نے سب لڑکوں سے دوستی ختم کر دی‘ کام کاج شروع کر دیا‘ ہر معاملے میں باپ کا حکم ماننے لگا۔
بڑے بزرگوں نے صحیح کہا ہے کہ دوست ہزار ہوں مگر مشکل وقت میں کوئی کام نہیں آئے تو کوئی فائدہ نہیں لیکن اگر دوست ایک ہے اور وہ ہر مشکل وقت میں آپ کے ساتھ ہو تو ایک ہی کافی ہے۔
Leave a Reply