حضرت علیؓ کی صاحبزادی کی عید

عید قریب آ رہی تھی حضرت علیؓ کی صاحبزادی امّ کلثومؓ نے بیت المال کے خازن علی بن ابی رافع سے کہلوایا۔ سنتی ہوں بیتُ المال میں ایک نہایت قیمتی ہار موجود ہے۔ کیا آپ اسے صرف عید کے دن کے لیے مجھے عنایت فرما سکتے ہیں، عید کے دوسرے دن واپس کردوں گی! ” خازن نے یہ ہار بھیج دیا اور اُم کلثوم نے عید کے دن یہ ہار پہن لیا۔

حضر ت علیؓ کی اس پر نظر پڑ گئی۔ آپ نے تعجب سے دریافت کیا ۔ “اُم کلثوم ! یہ ہار تمھیں کہاں سے ملا؟”

اُم کلثوم کے گلے سے اتار لیا۔ اور خازن کو بُلا کر بہت ڈانٹا اور فرمایا۔ ” خدا کی قسم اگر اُم کلثوم یہ ثابت نہ کر سکتی کہ اس نے یہ ہار عاریتاً لیا ہے تو میں اُس کا ہاتھ کٹوا دیتا اور بنو ہاشم کی خواتین میں یہ پہلی چوری ہوتی

کسی میں میں ایک بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا وہ بہت انصاف پسند اور رحمدل تھا اس کی رعایا بھی اسے پسند کیا کرتی تھی بادشاہ کی کوئی اولاد نا تھی اور بادشاہ کی رانی خوبصورت تو تھی مگر کم عقلی میں اپنی مثال آپ تھی رانی بادشاہ کو ہر وقت اس بات کے لیے اکساتی رہتی تھی کہ رانی کے بھائی کو وزیر بنا دیا جائے بادشاہ اپنی رانی کی بات سنی ان سنی کر دیتا تھا ایک دن بادشاہ اور رانی محل کے جھروکے میں بیٹھے ہوئے تھے محل سے دور ایک بستی میں شادیانے بج رہے تھے کہ جیسے کسی کی بارات آئی ہو رانی

نے بادشاہ سے پھر اپنے بھائی کو وزیر بنانے کی بات چھیڑ دی اور ضد کرنے لگی کہ اس کے بھائی کو وزیر بنا دیا جائے بادشاہ بڑے تحمل سے اپنی بیوی کی بات سنتا رہا اور پھر کہا اچھا اپنے بھائی کو بلاﺅ رانی خوش ہوگئی کہ بادشاہ اب اس کے بھائی کو وزیر بنا دے گا اس نے خادمہ کو کہا کہ جلدی سے اس کے بھائی کو بلایا جائے چند لمحوں بعد رانی کا بھائی بھی ہاپنتا ہوا بادشاہ کے حضور حاضر ہو گیا بادشاہ نے رانی کو دیکھتے ہوئے اپنے سالے سے کہا تم وزیر بننا چاہتے ہو سالے نے کہا کہ ہاں بادشاہ نے کہا کہ جاﺅ پتہ کر کے آﺅ کہ سامنے والی بستی میں شادیانے کیوں بج رہے ہیں سالا خوشی خوشی بستی کی جانب بھاگا اور کچھ دیر کے بعد بھاگتا ہوا واپس آیا اور کہا کہ یہ شادیانے کسی کی بارات میں بج رہے ہیں بادشاہ نے پھر کہا کہ جاﺅ پتہ کرو کہ کس کی بارات ہے؟ سالا پھر بھاگتا ہوا بستی کی جانب نکل گیا اور کچھ دیر کے بعد آ کر جواب دیا کہ یہ بارات قمرو کمہار کے بیٹے کی ہے بادشاہ نے پھر سوال کیا کہ جاﺅ پتہ کرو کہ یہ بارات کس گاﺅں سے آئی ہے سالا پھر بھاگتا ہوا بستی کی جانب نکل گیا اور چند لمحوں بعد آکر جواب دیا کہ یہ بارات فلاں گاﺅں سے آئی ہے رانی اس پورے عمل کو غور سے دیکھ رہی تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بادشاہ کیا کرنا چاہ رہا ہے بادشاہ نے پھر سالے سے کہا جاﺅ پتہ کر کے آﺅ کے قمرو کمہار کے بیٹے کی شادی کس سے ہو رہی ہے سالا اب اس عمل سے تھک چکا تھا مگر وزیر بننے کی لالچ میں دوبارہ بستی کی جانب نکل پڑا اور کچھ دیر بعد واپس آکر جواب دیا کہ یہ بارات رشید کمہار کے گھر آئی ہے

مسلسل کی بھاگ ڈور سے سالے کی حالت خراب ہو چلی تھی بادشاہ نے اپنے سالے پر رحم کھائے بغیر پھرسوال کیا کہ جاﺅ پوچھ کے آﺅ کہ حق مہر کتنا طے ہوا ہے بمشکل سالا بستی کی جانب چلا اور کافی دیر بعد واپس آکر جواب دیا اب بادشاہ نے اپنے سالے کو ایک جانب کھڑے ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے وزیر کو طلب کیا وزیر کے آنے پر بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ جاﺅ جا کر پتہ کرو کہ یہ شادیانے کیوں بج رہے ہیں وزیر فوراً حکم کی تعمیل کے لیے چل پڑا اور کچھ دیر کے بعد بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جواب دینے کی اجازت طلب کی اجازت ملنے پر وزیر نے بتایا کہ یہ شادیانے قمرو کمہار کے بیٹے کی بارات کے ہیں جو فلاں گاﺅں سے آئی ہے

قمرو کمہار کے بیٹے کی شادی رشید کمہار کی بیٹی سے ہو رہی ہے اور حق مہر اتنا ہے اور رشید نے اپنی بیٹی کو کیا جہیز دیا ہے یہ بارات آج ہی واپس جائے گی اور رشید کمہار بارات کی تواضع گڑ کے چاول اور اصلی گھی سے کرنے والا ہے وزیر کا جواب سن کر بادشاہ نے اپنی رانی کی جانب دیکھا رانی بہت شرمندہ ہوئی اور آئندہ کبھی اپنے بھائی کو وزیر بنانے کی ضد نہیں کی۔کسی طاقتور کی رشتہ داری کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہر عہدے کے اہل ہیں اور اہل افراد ہی ملک کا نظام بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *