کسی جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا
کسی جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا۔ ایک دن وہ کچھ بیمار ہو گیا جس کے سبب اس کی جسمانی طاقت جاتی رہی اور نقاہت کی وجہ سے اس چلنا پھرنا بھی دوبھر ہو گیا۔ چوہا کسی طرح دوپہر کو سخت گرمی میں گرتا پڑتا علاج کے لیے اُلّو کے مطب جا پہنچا۔ وہ جنگل کا مشہور حکیم تھا۔ اُلّو نے چوہے کا معائنہ کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ وہ تو قریب المرگ ہے۔
اُلّو نے کہا کہ بس اب تمھاری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہ جان کر چوہا اداس ہوگیا۔ حکیم اُلّو نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ موت تو ہر نفس کو ایک دن آنی ہے، تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں پہلے ہی علم ہوگیا کہ تمھارے جانے کا وقت قریب ہے، ورنہ کتنے ہی چوہے آخری وقت تک خوابِ غفلت میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ اپنی عیش کی زندگی اور دنیوی مصروفیت میں اس بات کی فکر ہی نہیں کرتے کہ کوئی اچّھائی اپنے نام کرلیں۔ خلقِ خدا کے لیے کچھ نیک کام کرتے جائیں۔ ہر موقع پر ہمّت اور بہادری کا ثبوت دیں، تم تو خوش قسمت ہو کہ ابھی کچھ وقت ہے جس کا فائدہ اُٹھا سکتے ہو۔ چوہا اس کی باتوں پر غور کرتا واپس گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں ایک جنگلی بلّی کی اس پر نظر پڑگئی۔ بلّی نے چوہے کو ہڑپ کرنے کے لیے جھپٹا مارا، چوہے کے اندر نجانے کہاں سے اتنی توانائی آگئی کہ اس نے ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھایا اور بلّی کی دھنائی کردی۔ یہ اتنا غیرمتوقع درعمل تھاکہ بلّی اپنا بچاؤ نہ کرسکی اور خوف کے مارے وہاں سے بھاگ نکلی۔ وہ حیران تھی کہ کل تک جو معمولی جانور اس کی آواز سے ڈر جاتا تھا، آج اس کی یہ درگت بنا رہا ہے۔
ادھر چوہے کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا چار دن کی زندگی ہے، اسے بھی ڈر کے کیوں گزاروں۔ اب میرے پاس کھونے کو بچا ہی کیا ہے، موت تو آنی ہی ہے، کیوں نہ حالات کا مقابلہ دبنگ طریقے سے کروں۔ یہ سوچتے ہوئے وہ آگے بڑھا تو دیکھا کہ آسمان سے ایک باز اُسے اچکنے کے لیے نیچے آ رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہی چوہے نے ایک پتھر اُٹھایا اور نشانہ باندھ کر پوری قوّت سے باز کے منہ پر دے مارا۔ پتھر باز کی آنکھ پر لگا اور وہ تکلیف سے چلّاتا ہوا وہاں سے آگے نکل گیا۔ اب تو چوہا جیسے شیر ہو گیا۔ اُسے لگ رہا تھا کہ ساری زندگی تو بیکار اور ناحق ڈرتے ہوئے گزار دی۔ اُس نے سوچا کہ میں تو صرف قد میں ہی چھوٹا ہوں، میری ہمّت کے آگے تو پہاڑ بھی نہ ٹھہرے۔ ان خیالات نے اسے بہت طاقت اور توانائی دی۔ اس کی نظر میں اب جنگل کا بادشاہ شیر بھی کسی بکری جیسا تھا۔ چوہا اس بلّی اور باز کے مقابلے میں اپنی جیت پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ راستے میں اچانک پیر پھسلا تو ایک گہرے گڑھے میں جا گرا۔ اس کا سَر کسی پتھر سے ٹکرایا اور خون نکلنے لگا۔ چند منٹ بعد اپنے حواس بحال کرکے وہاں سے نکلا اور دوبارہ حکیم کے پاس پہنچ گیا تاکہ وہ اس کی مرہم پٹّی کردے۔
وہاں پہنچا تو سورج ڈھلنے کو تھا۔ حکیم نے زخم پر دوا لگائی اور چوہے کو بغور دیکھا تو اُسے سمجھ آیا کہ دوپہر میں اس نے جس مرض کی تشخیص کی تھی وہ غلط تھی۔ چوہے کو تو معمولی بخار ہے جو دوا کی چند خوراکوں سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔اُلّو نے چوہے کو یہ بات بتانے سے پہلے کہاکہ زخم گہرا ہے، اسے بھرنے میں کم از کم ایک ہفتہ تو لگ ہی جائے گا۔ چوہا یہ سن کر افسردگی سے بولا میری تو موت سَر پر ہے، اوپر سے چوٹ اور یہ زخم بھی لگ گیا۔ اس پر حکیم نے سچ بتا دیا اور غلط تشخیص پر معافی بھی مانگ لی۔ چوہا یہ جان کر بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی گھر کو جانے لگا۔ خوشی کے ساتھ اس نے اپنے اندر عجیب سی تبدیلی بھی محسوس کی لیکن اسے سمجھ نہ سکا۔ شام گہری ہوچلی تھی۔ راستے میں اُسے ایک چھوٹا سا بچّھو نظر آیا۔ چوہے نے سوچا کہ اس موزی کو مار بھگائے، مگر فوراً ہی اُسے بچھو کا خطرناک زہر اور نوکیلا ڈنک یاد آگیا۔ خوف کے احساس نے اس کے بدن میں سنسنی پیدا کردی۔ وہ راستہ بدل کر نکلنے لگا۔ تب اچانک ہی بچّھو گویا اڑتا ہوا اس تک پہنچ گیا اور چوہے کو ڈنک مار کر آناً فاناً ختم کر دیا۔ اس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو شخص میّسر و موجود کو کھو دینے سے نہیں ڈرتا، وہ کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جب ایسا شخص اپنی منزل کا تعین کرکے اس کی سمت بڑھنا شروع کرتا ہے تو راستے کی مشکلات کا مقابلہ بھی ڈٹ کرتا ہے، وہ گھبراتا نہیں ہے اور کام یابی ایسے ہی لوگوں کا مقدّر بنتی ہے۔
Leave a Reply