ٹھرکی بوڑھا اور چالاک لڑکی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی نے اپنے کاروبار کے لیے ایک سیٹھ سے کچھ پیسے ادھار لے لیے ۔اپنا کاروبار شروع کیا اور دل لگا کر محنت کی کاروبار خوب چمکا ۔ اس آدمی نے بیس سال لگاتار محنت کر کے اپنا کاروبار خوب بڑھا لیا ۔ بیس سال بعد وہ سیٹھ اس کے پاس آیا اور اس سے اپنی رقم واپس مانگنے لگا ۔ وہ آدمی بہت پریشان ہوا کیونکہ وہ سیٹھ اس سے اپنی رقم سود سمیت واپس مانگ رہا تھا ۔ وہ آدمی کافی دن خاصا پریشان رہا۔

آخرکار ٹھرکی سیٹھ نے اپنی اوقات دکھا دی اور اس آدمی سے اس کی اکلوتی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا ۔ وہ آدمی مزید پریشان ہوگیا اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔ آخر کار اس نے اپنی بیٹی سے بات کی اور اس کو ساری بات بتادی ۔ سن کر وہ بہت رنجیدہ ہوئی اور اپنے والد کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئی ۔سیٹھ نے سنا تو خوشی سے ناچنے لگا اور اس نے لڑکی سے خود پوچھا تو اس کو اندازہ ہوا کہ وہ اس شادی کے لئے بددلی سے مانی ہے ۔ اس نے لڑکی کا دل جیتنے کے لیے چالاکی سے کام لیا اور اس کو ایک تھیلی پکڑائی اور کہا میں اس میں دو پتھر ڈالوں گا ایک کالا اور دوسرا سفید ، تم آنکھیں بند کرکے ان میں سے ایک اٹھا لینا ۔ اگر کالا پتھر نکلا تو میں تم سے شادی ضرور کروں گا اور اگر سفید نکلا تو تم آزاد ہو ، کیونکہ وہ لڑکی کا دل جیتنا چاہتا تھا تو اس نے کہا چاہے جو پتھر بھی نکلے تمہارے باپ کا سارا قرضہ معاف ہے ۔ وہ نیچے جھکا اور دو پتھر اٹھائے اور لڑکی کو کہا کہ وہ آنکھیں بند کرلے ۔

لڑکی بھی ہوشیار تھی اس نے کن انکھیوں سے دیکھ لیا تھا کہ سیٹھ نے دو کالے پتھر اٹھاے ہیں اور تھیلی میں ڈال دیے تھے ۔ اب وہ بہت پریشان ہوئی اس کے پاس دو راستے تھے کیونکہ پتھر تو ہر حال میں کالا ہی نکلنا تھا ۔ سو اس سے شادی تو ہر صورت کرنی پڑنی تھی اور اگر وہ پتھر نکالنے سے انکار کرتی تو اس کے باپ کا دیوالیہ نکل جانا تھا ۔ بڈھا سیٹھ بہت خوش تھا مگر اس کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ لڑکی کتنی ہوشیار تھی ۔

لڑکی نے تھیلی میں ہاتھ ڈالا اور ایک پتھر نکالتے ہی نیچے گرا دیا اور کہا اوہو! مجھ سے غلطی سے نیچے گرگیا اور پھر سیٹھ سے کہا کہ آپ دوسرا پتھر نکالیں تاکہ اگر وہ کالا ہوا تو میں نے سفید والا چنا تھا اور اگر سفید ہوا تو میں نے کالا چنا تھا۔ سیٹھ ہکا بکا رہ گیا کیونکہ لڑکی نے بازی پلٹ دی تھی اور وہ جانتا تھا کہ اب اس سے کسی صورت بھی شادی ممکن نہیں تھی اور اس کے باپ کا قرضہ بھی اس کو معاف کرنا پڑگیا

اس لیے کہتے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *