بابا بلھے شاہ کی نماز جنازہ کوئی کیوں پڑھنے کوتیارنہیں تھا،ہیجڑوں اوربھنگیوں نے انہیں ویرانے میں کیوں دفن کیا؟

پنجابی زبان کے مشہور عوامی شاعر بابا بُلھے شاہ کی پیدائش 1680ء میں ریاست بہاولپور (پاکستان) کے ایک گاؤں “اُچ گیلانیاں” میں ہوئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ کا خاندان قصور منتقل ہو گیا آپ کے والد کا نام شاہ محمد درویش تھا۔ وہ مسجد کی امامت کرتے تھے اور بچوں کو تعلیم دیتے تھے۔ انھیں عربی، فارسی اور مذہبی علوم پر دسترس حاصل تھی۔ بابا بُلّھے شاہ کا اصل نام عبداللہ شاہ تھا ۔۔ جو بگڑ کر بُلھا شاہ اور بُلّھے شاہ ہو گیا ۔۔ اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے ۔۔

اور یہی نام خاص و عام کی زبان پر گونجنے لگا ۔۔۔ بُلّھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔۔ چند دوسرے اساتذہ سے علم حاصل کرنے کے بعد علم و عرفان کی جستجو اور تڑپ آپ کو حضرت شاہ عنایت قادری کے دروازے پر لے آئی ۔۔ شاہ عنایت تصوف کے قادری سلسلے سے تعلق رکھتے تھے ۔۔ ذات کے لحاظ سے آرائیں تھے ۔۔ اور بہت سی فارسی کتابوں کے مصنف تھے ۔۔۔ وہ دوسرے صوفیاء کی طرح تارک الدُنیا نہیں تھے ۔۔ بلکہ کھیتی باڑی اور باغبانی کرتے تھے ۔۔۔

قصور میں مقیم تھے لیکن حاکم سے مخالفت کی وجہ سے لاہور منتقل ہونا پڑا اور پھر لاہور کے ہی ہو کر رہ گئے ۔۔ بُلّھے شاہ کا بچپن گاؤں میں مویشی چراتے گذرا ۔۔ والد امام مسجد تھے اور امام مسجد کی حیثیت اُس عہد میں گاؤں کے دوسرے ہنرمندوں موچی ، نائی اور جولاہوں کے برابر ہی تھی ۔۔ یہی وجہ ہے بُلّھے شاہ کامعاشرے کے پِسے ہوئے طبقات کے حوالے سے نہ صرف گہرا مشاہدہ تھا ۔۔ بلکہ آپ خود ان حالات سے گزرے تھے۔ اسی مشاہدے اور تجربے نے آگے چل کر بے باک شاعرانہ اسلوب کی بنیاد رکھی۔ اگر اُس عہد کا جائزہ لیا جائے تو سترہویں اور اٹھارویں صدی برصغیر کا پرآشوب عہد تھا۔ اس عہد نے نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی

کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ دلّی کو اجڑتے ہوئے دیکھا، لاکھوں انسان اس قتل و غارت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دوسری جانب یہ اورنگ زیب عالمگیر کی ” مذہبی جنونیت ” کا عہد تھا ۔۔ جس میں بادشاہت کے جبر کو ملائیت میں ڈبو کر لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔۔۔ عالمگیر کے بارے میں ابنِ انشاء کا مشہور جملہ ہے کہ ” دین و دنیا دونوں پر نظر رکھتا تھا نہ اس نے کوئی نماز چھوڑی اور نہ کسی بھائی کو چھوڑا ” عوام کے ساتھ سلوک میں مذہب کو اہمیت دی جانے لگی ۔۔ اور مذہبی تعصبات کو اُبھارنے کی کوشش کی گئی ۔۔۔ جبر و استبداد اور ظلم و ناانصافی کو نماز روزے اور ٹوپیاں سینے جیسے علامتی کاموں میں لپیٹ پر روا رکھا جانے لگا ۔۔

جس پر اُسے اورنگ زیب رحمتہ اللہ علیہ کہا جانے لگا ۔۔ یوں سمجھئیے کہ وہ اُس دور کی ضیاء الحقی تھی ۔۔۔ جس میں مذہبی پیشواؤں کو بھی جبر کا موقع میسر آیا ۔ ۔ دوسری طرف اس انتشار اور مذہبی جنونیت کے خلاف ہمیں ادبی اور فکری سطح پر ایک بے مثال ردِ عمل بھی ملتا ہے۔ اسی عہد میں پنجاب نے بُلّھے شاہ (1757-1680) اور وارث شاہ (1798-1722) کو جنم دیا ۔۔۔ سندھ کی دھرتی پر شاہ لطیف بھٹائی (1752-1689) اور سچل سرمست (1826-1739) نے انمٹ نقوش چھوڑے۔ پشتو زبان میں رحمان بابا

(1711-1653) عوام کی آواز بن کر اُبھرے اردو میں خواجہ میر درد (1785-1721) اور میر تقی میر (1810-1723) نے عظیم شعری

روایت کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں ۔۔۔ لیکن اس عہد کے بے مثال شعراء میں یہ اعزاز صرف بُلّھے شاہ کے حصے میں آیا کہ ان کے اشعار ، کافیاں اور دوہڑے صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ سندھ ، راجستھان اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں لوگوں کے دل کی آواز بن گئے ۔۔۔ اور اس عظیم شاعر کی آواز ہندوستان کے ہر کونے اور ہر لہجے میں گونجی۔ بُلّھے شاہ کی شاعری اور زندگی مذہبی ملاؤں اور پنڈتوں سے نبرد آزما رہی ۔۔ فرسودہ ذات پات کا نظام اور طبقاتی تفریق کو آپ نے خاص طور پر ہدفِ تنقید بنیایا ۔۔ گھسے پٹے کتابی علم سے نکل کر سماج کی زندہ حقیقتوں کو موضوع بحث بنایا ۔ مذہبی بنیادوں پر نفرت اور جھگڑے پیدا کرنے

والے متعصب اور جنونی مذہبیوں کے خلاف آواز بلند کی ۔۔ اور تمام انسانوں کو ایک انسانی برادری قرار دیا ۔ آپ جب شاہ عنایت کے مرید ہوئے تو اس پر بھی اُن کی برادری اور ملّاؤں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔۔ کیونکہ آپ سیّد تھے آلِ نبی اولادِ علی سے تعلق رکھتے تھے ۔۔ لیکن شاہ عنایت ذات کے آرائیں تھے جو کمتر اور گھٹیا سمجھی جاتی تھی ۔۔۔ یہ بات اُن کی برادری اور مذہبی ٹھیکیداروں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی کہ ایک اعلٰی خاندان اور قابلِ فخر نسبت کا حامل شخص نچلی ذات کے کسی فرد کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کرے ۔ لیکن آپ نے اپنے سیّد ہونے کو ٹھکرا دیا اور سب کی مخالفت مول لے کر شاہ عنایت کو مرشد مان لیا اور اُس نسلی تفاخر

سے نکل کر اپنی تشکیلِ نو کی اور ایک نئے انسان کے روپ میں سامنے آئے جو ماضی کے تمام تعصبات سے پاک ہو چکا تھا۔ اس حوالے سے اُن کے اشعار دیکھئیے : بُلھے نوں سمجھاؤن آیاں بہناں تے بھرجائیاں آلِ نبی اولاد علی دی توں کیوں لیکاں لائیاں من لے بُلھیا ساڈا کہنا ، چھڈ دے پلّہ رائیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیہڑا سانوں سیّد آکھے ، دوزخ ملن سزائیاں جہیڑا سانوں رائیں آکھے ، بہشتیں پینگاں پائیاں جے توں لوڑیں باغ بہاراں ، طالب ہو جا رائیاں اس بغاوت پر آپ کو خاندان ، ذات اور اپنے ہم مذہبوں کی شدید مخالفت مول لینا پڑی ۔۔ لیکن آپ ڈٹے رہے ۔۔ نہ صرف یہ کہ ہر قسم کا لعن طعن برداشت کیا بلکہ اپنی شاعری اور عمل سے اُس کا جواب بھی دیا ۔

اسی دور میں جب آپ نسلی تفاخر کو خاک میں ملانے کی پاداش میں زیر عتاب تھے ۔۔ آپ نے گدھے پال لیے جو اُس عہد میں سب سے نچلے طبقے کا کام تھا ۔۔ اور کوئی باعزت شخص یہ کام نہیں کر سکتا تھا ۔۔ لیکن بُلھے شاہ اپنے آپ کو اُس سماج کے نچلے ترین طبقے میں لے آئے اور اُس کا عملی حصّہ بن گئے ۔۔ یہاں تک کہ لوگ آپ کو “کھوتیاں والا” کہہ کر پکارنے لگے۔ دقیانوسی رسوم و رواج اور روایتی بندھن آپ کو کبھی بھی پسند نہ تھے ۔۔ زندگی کے ہر موڑ پر اُن کو توڑ کر آپ کو خوشی ملتی تھی ۔۔ مذہب ، رنگ ، نسل اور جنس کی تفریق آپ کے نزدیک ایک بے معنی چیز تھی ۔۔۔ اور انسانی وحدت اور انسانی برادری کی ہم آہنگی کے لیے

زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی تھی ۔۔۔ آپ کے حوالے سے مشہور ہے کہ ہیجڑوں کے ساتھ گھل مل جاتے ۔۔ اُن کے ساتھ ناچنا شروع کر دیتے ۔۔ یہاں تک کہ چوکوں اور چوراہوں میں مجمع کے سامنے بھی ہیجڑوں کے ساتھ ناچتے ۔ اُن کا خاندان اور برادری اس بات سے نالاں رہتے کہ بُلھا ہر قدم پر اُن کی بے عزتی کا باعث بن رہا ہے ۔۔ شاہ عنایت کا مرید ہونے کے بعد ، گدھے پالنا اور اب ہیجڑوں کے ساتھ ناچ گانا ۔۔ لیکن آپ اپنی سرمستی اور دھن میں چلتے چلے جا رہے تھے ۔ بُلھے شاہ سے قبل بھی شعراء نے مذہبی پیشواؤں کی چیرہ دستیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔۔ لیکن جس بہادری ، جرات اور دلیری سے بُلھے شاہ نے ان مذہبی ٹھیکیداروں کو رد کیا ہے

اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔۔ کہتے ہیں : ملّا تے مشالچی دوہاں اکو چت ، لوکاں کردے چاننا تے آپ ہنیرے وچ اسی طرح اُن مُلّاؤں کی عالمانہ اصطلاحات اور فرسودہ کتابوں کی بے معنی تکرار سے تنگ آ کر یوں اُن کا پردہ فاش کرتے ہیں : عِلموں پئے قضیے ہور اکھیں والے انھی کور پھڑ لئے ساہ تے چھڈے چور دوہیں جہانیں ہویا خوار عِلموں بس کریں او یار پڑھ پڑھ مسئلے روز سناویں کھانا شک شبہے دا کھاویں دسّیں ہور تے ہور کماویں اندر کھوٹ باہر سچیار علموں بس کریں او یار پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں اُچیاں بانگاں چانگھاں ماریں منبر چڑھ کے واعظ پکاریں تینوں کیتا حرص خوار علموں بس کریں او یار یہ بُلھے شاہ ہی تھا

جس نے رام رحیم کے قدیمی جھگڑے کو رد کر کے اصل مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروائی اور اس نتازعے کو بے معنی قرار دیا ۔۔ جو ملّاؤں کا گھڑا ہوا ہے ۔۔۔ اور جس کا جدید عہد کے تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔ کتے رام داس کتے فتح محمد ایہو قدیمی شور نپٹ گیا دوہاں دا جھگڑا ، نکل پیا کوئی ہور اپنے عہد کی افراتفری ، سماجی گراوٹ اور لوٹ مار کو بُلھے شاہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے پیوپتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے آپنیاں وچ اُلفت ناہیں ، کیا چاچے کیا تائے سچیاں نوں پئے ملدے دھکّے ، جھوٹے کول بہائے کہتے ہیں

ایک مرتبہ آپ حجرے میں بیٹھے تھے۔ رمضان کا مہینہ تھ، آپ کے کچھ مرید حجرے کے باہر بیٹھے گاجریں کھا رہے تھے ۔۔ قریب سے چند روزہ دار مسلمان گذرے تو اُنھیں رمضان میں اس طرح روزہ خوری پر شدید غصّہ آیا ۔۔۔بولے ” شرم نہیں آتی رمضان کے مہینے میں چر رہے ہو ” ؟ مریدوں نے کہا ” جاؤ بھائی مومنو! بھوک لگی ہے اسی لیے کھا رہے ہیں ۔۔۔” مومنوں کو شک ہوا کہ شاید یہ مسلمان نہیں ہیں ۔۔ اُنھوں نے پوچھا کہ تم ہو کون ؟ مُریدین بولے مسلمان ہیں کیوں مسلمانوں کو بھوک نہیں لگتی ؟؟ یہ سننا تھا کہ مومنین جو گھوڑوں پر سوار تھے نیچے اُتر آئے اور مریدوں کی خوب پٹائی کی ۔۔ اور حجرے میں جا کر آپ سے پوچھا ” ارے تو کون ہے ”

؟؟ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں جانے کا کہا ۔۔ انھوں نے دوبارہ پوچھا ” تو کون ہے بولتا کیوں نہیں” ؟؟ آپ نے پھر جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔ وہ آپ کو دیوانہ سمجھ کر چلے گئے ۔۔ تھوڑی دیر کے بعد مرید حجرے میں داخل ہوئے اور شکایت کی کہ اُنھوں نے ہمیں مارا ہے ۔۔

آپ نے کہا ” تم لوگوں نے ضرور کوئی قصور کیا ہو گا ۔۔۔ ” مرید بولے نہیں حضور ہم نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔

انھوں نے تم سے کیا پوچھا تھا ؟ مریدین نے بتایا کہ اُنھوں نے پوچھا تھا کہ تم کون ہو تو ہم نے کہا مسلمان ہیں ۔بُلھے شاہ نے کہا کچھ بنے ہو تو مار کھائی ہے ناں ہم کچھ نہیں بنے ہمیں کسی نے کچھ نہیں کہا ۔۔” • بُلّھے شاہ کون ہے ؟ اس بارے میں آپ نے خود شعری پیرائے

میں یوں اظہارِخیال کیا ہے ۔۔ بلھیا کی جاناں میں کون ؟ نہ میں مومن وچ مسیتاں نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں نہ میں پاکاں وچ پلیتاں نہ میں موسی نہ فرعون بلھیا کی جاناں میں کون ؟ نہ میں وچ پلیتی پاکی نہ میں وچ شادی غمناکی نہ میں آبی نہ میں خاکی نہ میں آتش نہ میں پون بلھیا کی جاناں میں کون ؟ نہ میں بھیت مذہب دا پایا نہ میں آدم ہوا جایا نہ کجھ اپنا نام دھرایا نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون بلھیا کی جاناں میں کون ؟ اوّل آخر آپ نوں جاناں نہ کوئی دوجا ہور پچھانا میتھوں ودھ نہ کوئی سیانا بلھیا او کھڑا ہے کون بلھیا کی جاناں میں کون ؟ بُلھے شاہ نے شاعری کے ضمن میں ایک ضخیم ورثہ چھوڑا ہے ۔۔ پنجابی کی تمام اہم اصناف کافی ِ سی حرفی ،

گنڈھاں ، اٹھوارے ، دوہڑے اور بارہ ماہے اُن کے کلام میں شامل ہیں ۔۔۔ ایک مختصر پوسٹ میں اُن کے کلام ، فکر، زندگی اور اُس عہد کے حالات کی جانب محض اشارہ کرنا ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔۔ اور اس میں بہت سے پہلوؤں کا رہ جانا بھی یقینی ہے۔ بُلھے شاہ اپنے عہد کے سماجی اور مذہبی جبر کے خلاف ایک انتہائی توانا آواز تھے جو اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر جدوجہد کرتے رہے ۔۔۔ آپ کی اعلی انسانی اقدار اور فکر و عمل کے باعث ہندو، مسلمان، سکھ اور مختلف عقیدوں سے تعلق رکھتے والے لوگ اُن سے یکساں محبت رکھتے ہیں۔ بُلّھے شاہ کی موت کے وقت (1757) اُن کے انقلابی فکر و عمل کے باعث ملّاؤں نے انھیں برادری

کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اُن پر کفر کا فتویٰ لگا کر اُن کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ویسے بھی بُلھے شاہ کو ان مداریوں کی ان بیہودہ رسومات کی ضرورت بھی کہاں تھی۔ وہ تو آج بھی اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ وہ تو خود کہتا ہے۔ ” بّلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور “

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *