روضہ رسولﷺ سے ایک بچے کی محبت
یہ حکایت نہیں بلکہ ایک سچا واقعہ ہے جو ریڈیو پاکستان ،اسلام آباد سے نشر ہونے والے ایک دینی پروگرام میں ایک عالمِ دین، جن کا نام مجھے یاد نہیں ،نے خود سنایا تھا ۔یہ واقعہ انہی عالمِ دین کے ساتھ مدینہ منورہ میں پیش آیا تھا۔
میں اس واقعہ کو جیسا کہ میں نے کئی سال پہلے سنا تھا، ویسے کا ویسا بیان کرنے کی کوشش کروں گا اور اگر الفاظ میں کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس کی معافی چاہوں گا۔
ایک عالمِ دین حج کی سعادت کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ حج کی فرضیت فارغ ہو کر سعادتِ دارین کے لئے وہ عالمِ دین مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی زیارت اور حاضری کے لئے آگئے۔ وہ روضۂ رسولؐ سے کچھ فاصلے پر ایک ہوٹل یا کسی گھر میں قیام پذیر تھے۔
مدینے کی معطر فضا ،اور ٹھنڈی ہوا ہر کسی کو اپنائیت کا ایسا احساس دلاتی ہے کہ کسی کا وہاں سے واپس جانے کو دل ہی نہیں کرتا۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی کی محبت نے اپنے دامن میں یوں بسا لیا ہو کہ بس ساری زندگی وہیں گذار دینے کی تمنا دل میں سما جاتی ہے۔
لیکن دستورِ زمانہ اور دستورِ تقدیر بھی تو ماننے پڑتے ہیں۔اس عالمِ دین کے دل کی بھی یہی کیفیت تھی۔
ان کا دل تو یہی چاہتا تھا کہ بس اب باقی ساری زندگی اسی کوچۂ ساقئی کوثر ﷺ میں بیت جائے ، لیکن ظاہری حقیقت یہی تھی کہ ان کی مدینے سے روانگی کا دن تیزی سے قریب آ رہا تھا۔
ایک دن وہ صبح کا ناشتہ کرنے کے بعد کھانے کے بچے کھچے ٹکڑے ، ہڈیاں ، چھلکے وغیرہ گھر سے باہر ایک جگہ پھینکنے آئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ اس کوڑے کے ڈھیر میں سے کچھ کھانے کی چیزیں نکال کر اکٹھی کر رہا ہے۔ اور لوگوں سے نظر بچا کر کھانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ اس کے تیور بتا رہے تھے
کہ وہ انتہائی مفلس گھرانے سے تعلق کرتا ہے۔عالمِ دین سے ، یہ کیفیت دیکھ کر، رہا نہ گیا۔ اس نے اپنے دل کی تمام تر نرمی، اپنے حسنِ اخلاق اور اپنی زبان کی تمام تر طراوت یکجا کرتے ہوئے اس بچے سے مخاطب ہونے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب رہے۔
ایسی کیفیت میں اس بچے سے مخاطب ہونا کسی نازک کانچ کے برتن کو ہاتھ میں لینے سے کم حساس نہ تھا۔
وہ بچے کو اس کی غربت کا احساس دلائے بغیر اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے۔وہ عالمِ دین اس بچے سے شفقت بھری باتیں کرتے کرتے اسے اپنی رہائش گاہ پر لے گیا۔
وہاں اس بچے کو کھانا کھلایا گیا اور اس کے حال، احوال سے متعلق جاننے کی کوشش کی گئی۔ اس بچے کی زبانی معلوم ہواکہ وہ یتیم ہے اور اس کی ماں کی مالی حالت اتنی سکت نہیں رکھتی کہ وہ اس کی تعلیم اور اچھے گزر اوقات کا بندوبست کر سکے۔ لہٰذا وہ بچہ اپنے باقی بہن بھائیوں کی طرح حالات کے رحم و کرم کے سپرد کیا جا چکا ہے۔
Leave a Reply