بتا کیا تیرا رب رحمدل ہے یا ظالم؟
عہد حضرت داؤد علیہ السلام میں ایک عورت بیوہ کیا ہوئی کہ اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ بچوں کا ساتھ اور کل جمع پونجی تین درہم۔حالات سے مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور جا کر بازار سے ان تین دراہم کا اون خرید لائی، کچھ چیزیں بنا کر فروخت کیں توپانچ درہم وصول پائے۔ دو درہم سے کھانا پینا خریدا اور تین درہم کا پھر سے اون لیتی آئی۔ اسی طرح کچھ دن گزر بسر کیا، ایک دن بازار سے کھانا پینا اور اون لیکر گھر کو لوٹی، اون رکھ کر بچوں کو کھانا پینا دینے لگی کہ ایک پرندہ کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور اون اٹھا کر لے گیا۔ عورت کیلئے اپنی کل کائنات کا یوں لُٹ جانا سوہان روح تھا، مستقبل کی ہولناکیوں سے خوفزدہ اور غم و غصے سے پاگل سی ہو کر رہ گئی۔
کر رہ گئی۔ دوسرے دن سیدھا حضرت داوود علیہ االسلام کے گھر گئی اور اُن کو اپنا قصہ سنا کر ایک سوال پوچھا: کیا ہمارا رب رحمدل ہے یا ظالم؟ سیدنا داوود علیہ السلام عورت کی درد بھری کہانی سن کر پریشانی کے عالم میں کوئی جواب دینا ہی چاہتے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی، جا کر دیکھاتو دس اجنبی اشخاص کو کھڑے ہوئے پایا۔ اُن سے آمد کا مقصد اور ماجرا پوچھا تو انہوں نے کہا؛ حضرت ہم سمندر میں سفر کر رہے تھے کہ ہماری کشتی میں ایک سوراخ ہوگیا۔ پانی اس تیزی سے بھر رہا تھا کہ ہمیں ہماری موت صاف نظر آ گئی۔ مصیبت کی اس گھڑی میں، ہم میں سے ہر شخص نے عہد کیا کہ اگر اللہ پاک ہماری جان بچا دیتے ہیں تو ہم میں سے ہر آدمی ایک ایک ہزار درہم صدقہ دے گا۔
ابھی ہم یہ دُعا کر ہی رہے تھے کہ ایک پرندے نے ہماری کشتی میں اون کا ایک گولا لا کر پھینک دیا۔ جسے ہم نے فوراً سوراخ میں پھنسایا، کشتی کو پانی سے خالی کیا اور سیدھے یہاں نزدیک ترین ساحل پر آ پہنچے۔ ہم کیونکہ یہاں کیلئے اجنبی تھے اس لیئے لوگوں سے کسی معتبر آدمی کا نام پوچھا اور انہوں نے ہمیں سیدھا آپ کے پاس بھیج دیا ہے۔ یہ لیجیئے دس ہزار درہم اور ہماری طرف سے مستحقین کو دے دیجیئے۔حضرت داوود علیہ السلام دس ہزار درہم لیکر سیدھا اندر اُس عورت کے پاس گئے۔ سارے پیسے اُسے دیتے ہوئے کہا؛ اب میں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا تیرا رب رحمدل ہے یا ظالم؟
Leave a Reply