پاکستان کا انوکھا ترین علاقہ جہاں عورت کا حکم چلتا
اسلام آباد( گلوب نیوز) مغربی اور بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا ہر وقت جاری رکھتاہے جس کی وجہ سے بیرونی دنیامیں پاکستان کا امیج زیادہ اچھانہیں لیکن اِسی ملک میں امن وامان ، معاشرتی انصاف اور بھائی چارے کی ایسی مثالیں بھی ہیں جس کی مہذب دنیا میں مثال نہیں مل سکتی ، سب سے زیادہ جرائم سے متاثرہ سمجھے جانیوالے
کراچی کا ایک علاقہ ایسابھی ہے جہاں رات کی تاریکی میں گلیوں میں خواتین کی حکمرانی ہوتی ہے ، جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور 20ہزار کی آبادی میں کوئی شخص بھوکانہیں سوتا، کسی بھی غیرشخص کا علاقے میں گھسنا ہی ناممکن ہے جبکہ شادی بیاہ کی عمومی رسومات ہفتے کی شام کوہی ہوتی ہیں ،علاقے میں نئے آنیوالے شخص سے عزت سے پیش آتے ہیں لیکن آنے کا مقصد اور شناخت مشکوک ہونے کے بعد اجتماعی اقدام بھی ہوسکتاہے ، ایسا ہی کچھ ایک سیاسی جماعت کے کارکنان کے ساتھ بھی ہواجو زبردستی کھالیں لیناچاہتے تھے لیکن پھر اُنہیں دم دبا کر بھاگنا پڑا، کسی کو خون کی ضرورت ہوتو مسجد میں اعلان ہوتاہے اور محلے کا ہرنوجوان ہسپتال پہنچتاہے ۔ یہ علاقہ کراچی میں’ رنچھوڑلائن ‘ سے معروف ہے جس کا پرانا نام گزدرآباد ہے ، اس غریب علاقے میں رہائشی مارواڑی سلاوٹ برادری کی اپنی بولی، رسوم و روایات ہیں۔گزدرآباد کی تنگ گلیاں دن کے اوقات میں پرہجوم رہتی ہیں،نصف شب کے بعد چہل پہل تھم جاتی ہے اور سناٹے کا راج ہوجاتا ہے، پھر خواتین گھروں سے باہرآکر گلیوں میں گھروں کے باہر بنے تختوں پر بیٹھنا
شروع ہوجاتی ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق چائے کیساتھ لطیفے سنانے اور ہنسنے ہنسانے میں مصروف خواتین رات کے پہر گلیوں پر حکمرانی کرتی ہیں، بغیر کسی ڈر یا ملامت کے، کوئی مرد یا بچہ ان کے امن کو متاثر نہیں کرتا اور وہ اپنا فرصت کا وقت بھرپور مزے کے ساتھ گزارتی ہیں، اس علاقے کے رہائشیوں کے لیے یہ برسوں پرانی ایک عام چیز ہے۔ رپورٹ کے مطابق مارواڑی سلاوٹ برادری برصغیر کی تقسیم سے قبل راجھستان کے شہر جیسلمیر سے کراچی اور حیدرآباد منتقل ہوئی تھی،یہ آپس میں جڑ کر رہتے ہیں اور گزدرآباد میں آبادی بیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور وہ اپنے آباو¿ اجداد کی جانب سے بسائے گئے علاقے سے منتقل ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں کی مرکزی شاہراہ متعدد گلیوں سے منسلک ہے جن کے پرانے نام ابھی تک برقرار ہیں جیسے پیرو بدھا سٹریٹ، کلیان جی اسٹریٹ، کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کس زمانے میں ان کا قیام عمل میں آیا،ہر گلی کے آغاز پر لکڑی کی بینچ ہر کونے میں رکھی ہیں جہاں ہمیشہ ہی لوگ موجود ہوتے ہیں اور بھیل پوری سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو کہ اس علاقے کی خاصیت ہے۔ ان گلیوں میں سیکیورٹی کی بھی کوئی
پریشانی نہیں ، گلیوں میں آنے والے کسی بھی تخریب کار سے فوری طور پر اس کے آنے کا مقصد پوچھا جاتا ہے اور اطمینان بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں خواتین کی جانب سے اجتماعی اقدام کیا جاتا ہے۔رپورٹ میں ایک بزرگ خاتون کے حوالے سے بتایاگیاکہ دوسال قبل سیاسی ورکرز اور علاقے کے رہائشیوں کے درمیان عیدالاضحیٰ کے موقع پر کھالیں اکھٹی کرنے پر تنازع ہوگیاتھا،مارواڑی برادری نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور جب ورکرز مشتعل ہوگئے تو بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ان کے سامنے آگئے۔ ان چند ورکرز کا سامنا پوری برادری سے ہوا جو پرعزم، خطرات یا طاقت سے نمٹنے کے لیے تیار تھے۔،جب ہمارے مرد بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تو پارٹی اراکین پر دباؤ بڑھ گیا، ہم سب (خواتین) نے اکھٹے ہوکر بوتلیں اور جو کچھ ملا سیاسی ورکرز پر برسانا شروع کردیا، انہیں ہمیں دھمکانے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس علاقے کا نام ہاشم گزدر کے نام پر رکھا گیا جوا-42 1941ءمیں کراچی کے میئر تھے، تقسیم سے پہلے وہ سندھ کے وزیر رہے اور بعد میں پاکستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن بن گئے،
گزدر نام درحقیقت ایک خطاب تھا جو ہاشم گزدر کے والد کو راجھستان کے راجا نے شاہی محل میں ایک خوبصورت عمارت تعمیر کرنے پر دیا۔ ان کی جماعت بھی موجود ہے جس کے ایک رکن سلمان گزدرنے ڈان نیوز کو بتایاکہ تمام امور پر غور اور فیصلہ مشاورت کمیٹی کرتی ہے، اب چاہے وہ گھریلو تشدد کا معاملہ ہو طلاق یا چوری کا، ایک تیرہ رکنی ٹیم کا انتخاب مختلف امور جیسے کھیل، صحت، تعلیم اور مقامی مساجد وغیرہ کے لیے ہوتا ہے۔ جماعت کا اپنا آئین ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ برادری کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھے، ہمارے اپنے شناختی کارڈز بھی ہیں جو قومی شناختی کارڈز سے ملتے جلتے ہیں، علاقے میں جرائم کی شرح بہت کم ہے اور یہاں کی گلیوں میں مقامی رہائشی لوٹ مار کے ڈر سے آزاد ہوکر آزادی سے گھومتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق شادی کیلئے ہال بک نہیں کیے جاتے بلکہ مرکزی شاہراہ پر ہی تقریب کا انعقاد ہوتاہے اور ہر شخص کو دعوت دی جاتی ہے ، تمام شادیوں کا انعقاد ہفتہ کو ہوتا ہے کیونکہ صرف اسی روز شاہراہ استعمال کرنے کی اجازت حکومت سے لے رکھی ہے،ایک خاتون ٹیچر نے بتایاکہ
اگرچہ مرد تمام تقاریب میں شریک ہوتے ہیں تاہم یہ خواتین ہیں جنہیں تمام امور پر بالادستی حاصل ہے، تحائف اور کھانا تقسیم کیا جاتا ہے مگر اصل جشن نصف شب کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جب مرد گھر چلے جاتے ہیں تو خواتین اپنا جشن ختم کرکے طلوع ہوتے سورج کے ساتھ دلہن کو دولہا کے پاس لے جاتی ہیں۔ علاقے کی مکین بزرگ خاتون کے مطابق ضرورت کے وقت اکھٹے کھڑے ہوتے ہیں، اگر کسی کو خون کی فوری ضرورت ہو تو اس کا اعلان مسجد میں کیا جاتا ہے اور لوگوں کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آتا ہے، فخر سے دعویٰ کرسکتی ہوں کہ ہمارا کوئی پڑوسی رات کو بھوکا نہیں سوتا۔
Leave a Reply