اللہ تعالیٰ کی بخشش
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص ایسا تھا جو اپنی توبہ پر کبھی ثابت قدم نہیں رہتا تھا۔ جب بھی وہ توبہ کرتا، اسے توڑ دیتا۔ یہاں تک کہ اسے اس حال میں بیس سال گزر گئے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ میرے اس بندے سے کہہ دو میں تجھ سے سخت ناراض ہوں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس آدمی کو اللہ کا پیغام دیا تو وہ بہت غمگین ہُوا اور جنگلوں کی طرف نکل گیا۔ اور وہاں جا کر اس گنہگار شخص نے ایسی خوبصورت دعا کی اللہ تعالٰی کو دوبارہ وحی کرنا پڑی۔
اس شخص نے بارگاہِ ربّ العزت میں عرض کی۔ اے ربّ ذوالجلال! “تیری رحمت کم ہو گئی یا میرے گناہوں نے تجھے دُکھ دیا؟ تیری بخشش کے خزانے ختم ہو گئے یا بندوں پر تیری نگاہِ کرم نہیں رہی؟
تیرے عفوودرگزر سے کونسا گناہ بڑا ہے؟ تُو کریم ہے، میں بخیل ہوں، کیا میرا بخل تیرے کرم پر غالب آ گیا ہے؟ اگر تُو نے اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے محروم کر دیا ۔ تو وہ کس کے دروازے پر جائیں گے؟
اگر تُو نے دھتکار دیا تو وہ کہاں جائیں گے؟ اےاللہ تعالٰی کو دوبارہ وحی کرنا پڑی۔ اس شخص نے بارگاہِ ربّ العزت میں عرض کی۔
اے ربّ ذوالجلال! “تیری رحمت کم ہو گئی یا میرے گناہوں نے تجھے دُکھ دیا؟تیری بخشش کے خزانے ختم ہو گئے یا بندوں پر تیری نگاہِ کرم نہیں رہی؟ تیرے عفوودرگزر سے کونسا گناہ بڑا ہے؟
تُو کریم ہے، میں بخیل ہوں، کیا میرا بخل تیرے کرم پر غالب آ گیا ہے؟ اگر تُو نے اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے محروم کر دیا۔ تو وہ کس کے دروازے پر جائیں گے؟ اگر تُو نے دھتکار دیا تو وہ کہاں جائیں گے؟ اے ربِّ قادر و قہار! اگر تیری بخشش کم ہو گئی اور میرے لیے عذاب ہی رہ گیا ہے تو تمام گناہ گاروں کا عذاب مجھے دے دے میں اُن پر اپنی جان قربان کرتا ہوں۔”
اللّہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا؛ جاؤاور میرے بندے سے کہدو کہ تُو نے میرے کمالِ قدرت اور عفو و درگزر کی حقیقت کو سمجھ لیا ہے۔ اگر تیرے گناہوں سے زمین بھر جائے تب بھی میں بخش دوں گا
Leave a Reply