بیوہ اورامام ابو حنیفہؒ

تاریخ میں اس قسم کے واقعات بہت ہیں۔ حاسدین نے سوچا کہ امام ابو حنیفہؒ کے دامن پر ایسا دھبہ لگا دیا جائے کہ لوگ بدظن ہو جائیں۔ لہٰذا انہوں نے ایک جوان عمر بیوہ عورت سے رابطہ کیا کہ کسی حیلہ سے امام صاحب کو اپنے گھر بلا ہم تمہیں اس کے بدلے

میں بھاری رقم ادا کریں گے۔ عورت بے چاری پھسلتی بھی جلدی ہے اور پھسلاتی بھی جلدی ہے۔وہ جھانسے میں آ گئی۔ چنانچہ امام ابوحنیفہؒ جب رات کو گھر جاتے وقت اس عورت کے گھرکے سامنے سے گزرے تو عورت باپردہ ہو کرنکلی اور کہنےامام ابوحنیفہؒ ، میرا خاوند فوت ہو رہا ہے وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے اور وہ وصیت میری سمجھ میں نہیں آرہی، خدا کے واسطے آپ وہ سن لیں۔ آپ گھر میں داخل ہوئے۔ عورت نے دروازہ بند کر دیا۔ کمروں میں چھپے ہوئے حاسدین باہر آ گئے اور کہنے لگے، ابوحنیفہؒ آپ رات کے وقت ایک علیحدہ مکان میں اکیلی نوجوان عورت کے پاس برے ارادے سے آئے ہیں۔چنانچہ اس عورت کوامام اعظمؒ کو لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ حاکم وقت تک بات پہنچی تو اس نے کہا انہیں فی الحال حوالات میں بند کر دیا جائے۔ میں صبح کے وقت کارروائی مکمل کروں گا۔ امام اعظمؒ اور اس عورت کو ایک تاریک کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ امام اعظمؒ باوضو تھے۔ لہٰذا وہ نوافل پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔ جب کافی دیر گزر گئی تو اس عورت کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں نے اتنے پاک دامن شخص پر بہتان

لگایا ہے۔ جب امام اعظمؒ نے نماز کا سلام پھیرا تو وہ عورت کہنے لگی، آپؒ مجھے معاف کر دیں۔ پھر اس نے ساری کہانی سنا دی۔ امام اعظمؒ نے فرمایا کہ اچھا جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔اب میں تجھے ایک تدبیر بتاتا ہوں تاکہ ہم اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔اس نے پوچھا وہ کیسے؟ آپؒ نے فرمایا کہ تم اس پہریدار کی منت سماجت کرو کہ لوگ مجھے اچانک پکڑ کر لے آئے ہیں۔ مجھے ایک ضروری کام سمیٹنے کے لیے گھر جانا ہے تم میرے ساتھ چلو تاکہ میں وہ کام کر سکوں۔ پھر جب پہرے دار مان جائے تو میرے گھر چلی جانا اور میری بیوی کو صورت حال بتا دینا تاکہ وہ تمہارے اسی برقع میں لپٹ کر یہاں میرے پاس آ جائے۔ عورت نے رو دھو کر پولیس والے کا دل موم کر لیااوریوں امام صاحبؒ کی اہلیہ محترمہ حوالات میں ان کے پاس پہنچ گئیں۔ جب صبح ہوئی تو حاکم وقت نے طلب کیا کہ امام اعظمؒ اور اس عورت کو میرے سامنے پیش کیا جائے۔ حاسدین کاجم غفیر موجود تھا۔ جب پیشی ہوئی تو حاکم نے کہا کہ ابوحنیفہؒ تم اتنے بڑے عالم ہو کر بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہو۔ امام اعظمؒ نے پوچھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟حاکم نے کہا کہ آپ ایک نامحرم عورت کے ساتھ رات کے وقت ایک مکان میں دیکھےگئے ہیں۔امام صاحب نے فرمایا وہ نامحرم نہیں ہے۔ حاکم نے پوچھا، وہ کون ہے؟ آپ نے اپنے سسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ان کو بلاؤ تاکہ شناخت کریں۔ وہ آئے، انہوں نے دیکھا تو فرمانے لگے کہ یہ تو میری بیٹی ہے۔ میں نے فلاں مہینے میں ان کا نکاح امام ابوحنیفہ سے کر دیا تھا۔ چنانچہ امام صاحبؒ کی خداداد فہم سے حاسدین کی تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی اور ان کی سازش خاک میں مل گئی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *