تم شیخ صاحب کے گھر گئی تھیں؟
قادری صاحب چہرے پہ بے تحاشہ برہمی و غصے کے تاثرات لئے ہوئے گھر میں داخل ہوئےچیخ کے بیگم کو آواز دی، بیگم بیچاری گھبرا کے آئی، خیر تو ہے؟ کیا ہوگیا؟تم شیخ صاحب کے گھر گئی تھیں؟ قادری صاحب نے اپنے دیرینہ، جگری اور گہرے دوست کے نام کا حوالہ دیکر پوچھا، “اور تم نے ان سے کہا کہ وہ مجھ سے کہے کہ میں تمہیں شاپنگ کے لئے پیسے دوں؟”“ہاں گئی تھی، اور کہا بھی تھا” بیگم نے اقرار کیاکیا؟؟؟؟؟؟؟ قادری صاحب تقریباً دھاڑتے ہوئے بولے، شاید انکو بیگم سے انکار کی توقع تھی، “کیا میں گھر میں نہیں تھا؟ کام سے میری واپسی نہیں ہونی تھی؟
مر گیا تھا؟ مجھ سے ڈائرکٹ کیوں نہیں مانگے پیسے؟ شیخ سے کیوں مانگے؟”“اللہ نہ کرے! مانگے تو آپ ہی سے ہیں، بس شیخ صاحب آپ کے اتنے قریبی دوست ہیں تو ان سے جا کر بول دیا کہ آپ سے کہیں کے آپ مجھے پیسے دے دیں” بیگم نے معصومیت سے کہا۔ قادری صاحب کا غصہ سوا نیزے پہ پہنچ گیا،” دماغ درست ہے تمہارا؟ گھر میں موجود اپنے شوہر کو چھوڑ کر تم گھر سے نکلیں، دوسرے علاقے میں موجود میرے دوست کے پاس جا کر کہہ رہی ہو کہ وہ مجھے بولے، وہ کیوں بولے مجھ سے؟ تم نے کیوں نہیں کہامجھ سے؟”
“ارے وہ آپ کے اتنے قریبی دوست ہیں، انکی بات کی اہمیت بھی ذیادہ ہوگی آپ کی نظر میں” بیگم نے قادری صاحب کے غصے کو گویا ہوا میں اُڑا کر بدستور نرم اور معصوم لہجے میں کہاقادری صاحب نے خود کو اپنے بال نوچنے سے بڑی مشکل سے روکا اور پھنکارتے ہوئے بولے،”دوست کی بات کی اہمیت، اسکی اپنی باتوں کے لئے ہے، اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ میری بیوی،میرے بچے، میرے والدین یا بہنیں اپنی ضرورت کے لئے مجھ سے کہنے کے بجائے جا جا کے میرے دوست کو بولیں گی تب میں سنوں گا ورنہ نہیں، ارے جو میرے اپنے ہیں وہ اپنی ضرورت مجھ سے نہیں بولیں گے تو کس سے بولیں گے؟ دوست جتنا بھی قریبی ہو، کیا میں نے کہا تم لوگوں سے کے اپنی ضرورت میرے دوست سے بولو؟ کیا میرے دوست نے کہا تم سے کہ میرے پاس آئو اور اپنی ضرورتیں اور مسائل اسے بتائو؟ کیا آج تک میں نے تم لوگوں کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی کوتاہی کی جو تم دوست کے پاس چلی گئیں؟ بولو جواب دو؟ ذلیل کروا دیا تم نے آج مجھے میرے دوست کے سامنے، کیا سوچتا ہوگا وہ میرے بارے میں۔۔۔۔۔۔
” قادری صاحب بولتے بولتے رونے والے ہوگئےبیگم نے اس بار بڑی سنجیدگی سے کہا،”معافی چاہتی ہوں، ایک چھوٹے سے خاندان کا سربراہ ہوکے آپ کا غصہ سوا نیزے پہ پہنچا ہوا ہے کہ آپ کے خاندان کے ایک فرد یعنی میں نے کسی غیر سے نہیں بلکہ آپ کے ہی ایک دوست سے سفارش کیوں کروائی جبکہ آپ کا روز کا معمول ہے کہ خالقِ کائنات کی مخلوق ہوتے ہوئے آپ کبھی دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشکل کشائی کروانا چاہتے ہیں، کبھی بابا فرید کے در پہ کاروبار کی ترقی کروانا چاہتے ہیں،۔
کبھی سہون کا رخ کرتے ہیں تو کبھی شیخ عبدالقادر جیلانی رح کو پکارتے ہیں، منع کیا جائے تو جواب ملتا ہے، مانگ تو ہم اللہ ہی سے رہے ہیں، مگر اس کے سچے دوستوں کے وسیلے سےکیوں؟ دوستوں سے کیوں؟آپ ہی کے بقول، کیا اللہ میاں نعوزبااللہ چھٹی پہ گئے ہوئے ہیں؟
مسجد یا گھر میں پانچ وقت کی اذان میں ہمارا رب ہمیں “فلاح یعنی کامیابی” کی طرف بلا رہا ہے آپ جاتے کیوں نہیں اور جاتے ہیں تو کیا نماز میں اسے اپنی ضرورت نہیں بتا سکتے؟ اور جب اللہ کواپنی حاجت بتا دی تو کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ بزرگوں کے در کے چکر لگائے جائیں؟کیا ان بزرگ ہستیوں نے کہا کہ اللہ نے ہمیں تمہاری مشکلات دور کرنے کا حق “عطا” کیا ہے؟کیا اللہ نے کہا کہ مجھے میرے دوستوں کے زریعے سے پکارو گے تو سنوں گا؟
جب آپ کو اپنی معمولی سربراہی میں اپنے عزیز ترین دوست کی شمولیت گوارہ نہیں تو تو خالقِ کائنات سے اسکی امید کیوں رکھتے ہیں؟
غالباً سجھ گئے ہونگے آپ کہ میں آپ کے دوست کے پاس کیوں گئی تھی؟ بیگم نے بات ختم کی اور کمرے سے نکل گئیں، قادری صاحب اے سی کھول کر پسینہ سکھانے لگے
Leave a Reply