تو سمجھ لینا کہ اللہ تعالیٰ
انسان ہونے کے ناطے ہم سب سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور جب ہم اپنے گناہوں پر نادم ہوتے ہیں تو توبہ کے لیے اپنے خالق کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں۔ وہی خالق بہتر جانتا ہے کہ ہماری توبہ قبول ہوئی کہ نہیں البتہ اپنی زندگی میں نظر آنے والی کچھ تبدیلیوں سے ہمیں کسی حد تک اندازہ ضرور ہو سکتا ہے کہ توبہ کے بعد ہم کس قدر فلاح کے راستے کی جانب گامزن ہوئے قرآن وحدیث کی ہدایت کی روشنی میں کچھ ایسی نشانیاں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تمہارے اچھے اعمال سے تمہیں مسرت محسوس ہونے لگے اور برے اعمال سے تکلیف اور غم محسوس ہو تو یہ ایمان کی نشانی ہے اسی طرح جب انسان اپنے گناہوں سے سچے دل کے ساتھ توبہ کرلے اور یہ عہد کرے کہ وہ دوبارہ گناہ کی جانب مائل نہیں ہوگا تو اسے اپنے خالق سے رحم اور مغفرت کی پوری امید رکھنی چاہیے۔
توبہ دراصل اپنے گناہوں پر گہرا دکھ اور ندامت محسوس کرنے کا ہی دوسرا نام ہے۔ جب انسان اپنے طرز عمل کو بدلنے کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ پروردگار نے اس پر کرم کر دیا ہے اور اسے ہدایت کا راستہ دکھادیاہے۔ علماء کہتے ہیں کہ دل کی اس بے قراری کا خاتمہ صرف اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کے حصول سے ممکن ہے۔ اگر احساس ندامت اور توبہ کے بعد آپ کے دل کو قرار نصیب ہوجاتا ہے تو علماء کے نزدیک یہ اس بات کی علامت ہے کہ پروردگار نے آپ کی توبہ قبول فرمائی اور آپ کے دل کو اطمینان بخش دیا ہے۔ اکثر لوگ دعا کرتے اور اسکے قبول نہ ہونے پر پریشان بھی ہوتے ہیں حالانکہ کسی کی دعا رد نہیں ہوتی ۔اسکی قبولیت کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ۔سورہ البقرہ میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے”جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔
احادیث مبارکہ میں دعا کی قبولیت کے کئی اوقات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مسلمان ان اوقات میں دعا کریں تو قبول ہوتی ہے ،ان میں سے چند اوقات کا یہاں ذکر کررہا ہوں۔ حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ انسان اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے (سجدے میں ) دعاء کثرت سے کیا کرو۔ حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں۔ ایک اذان کے وقت ،دوسرے بارش کے وقت۔ حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ ! پھر ہم اس وقت کیا دعا کریں؟ آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی عافیت مانگا کرو۔ حضرت ابوہریرہ ہے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو جائے گی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ جب امام غیر المغضوب علیھم و لا الضالین کہے تو تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔ حضرت ابوامامہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا کہ کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایاکہ رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی (دعا)۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اس وقت جو مسلمان بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے جو بھی بھلائی مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرمائیں گے۔ حضرت جابر ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے۔
Leave a Reply